کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 38
جائے گا"۔علاوہ ازیں امت کے اقتصادی اور معاشرتی حالات کی درستی شرعی اسباب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور انہی شرعی اسباب کے ذریعہ اللہ عزوجل کی "کونی سنتیں " [1]وقوع پذیر ہوتی ہیں ، اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}(الرعد: 11) ، ترجمہ: " بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں"، اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا}(النساء: 66) ، ترجمہ: " اور انہیں جو نصیحت کی جاتی ہے اگر وہ اس پر عمل پیرا ہو جاتے تویہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور (ایمان پر) بہت زیادہ ثابت قدم رکھنے والا ہوتا"، اسی طرح اللہ عزوجل نے فرمایا: {وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ }(الاعراف:96) ، ترجمہ: اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہو جاتے تو ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے خزانے کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی تو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا "، اور اللہ عزوجل نے فرعون کے بارے میں فرمایا:" {فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ}(الزخرف: 54) ، ترجمہ:" غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی بیشک وہ نافرمان لوگ تھے"، اگر قوم فرعون نیک لوگ ہوتے تو فرعون انہیں بے وقوف نہیں بنا سکتا تھا، لہذا ایک ایسے معاشرے کا قیام جو اللہ عزوجل کے احکامات کی فرمانبرداری کرتا ہو یہ اس معاشرے کے لئے سب سے بڑی ضمانت ہے کہ اللہ عزوجل ان پر ایک ایسا حاکم قائم فرمائے گا جو شریعت الہی کو نافذ کرے گا اور اس معاشرے میں عدل قائم کرے گا۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئے موزوں ترین ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام ہرقسم کے معاشرے کی ثقافت اور روایات میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، بلکہ اسلام کا انسانی معاشرے کے لئے موزوں ہونا ، اس معاشرے کا اسلام کو صحیح طور پر قبول کرنے ، اور عقیدہ ، شریعت اور طرز حیات میں اسلام کو مکمل طور پر اپنا لینے پر ہی منحصر ہے، نہ یہ کہ وہ معاشرے اسلام اور اسلامی تعلیمات ہی کو توڑ مروڑ کر اپنی روایتی ثقافت اور طرز زندگی کے مطابق بنا لیں۔
[1] شیخ حفظہ اللہ کے اس جملہ کا مقصد یہ ہے کہ زمین میں امن و امان کا حاصل ہونا، بارشوں کا برسنا ، زمین کا سبزہ اگانا ، اور غلبہ وقوت کا ملنا، یہ سب چیزیں اللہ عزوجل کی " کونی " یعنی کائناتی سنتیں کہلاتی ہیں ، اور یہ کونی سنتیں بالعموم شرعی اسباب سے جڑی ہوتی ہیں ، اسی لئے استغفار کے ذریعہ بارشوں اور باغات کی کثرت کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر مذکور ہے، اسی طرح کثرت زنا اور بدکاری کے نتیجہ میں معاشرے میں عجیب و غریب بیماریوں کے پھیلنے کا ذکر بھی بعض احادیث میں وارد ہے، و علی ہذا القیاس۔(مترجم)