کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 37
رافضی، ایک مسلمان ، ایک یہودی ایک عیسائی کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا[1]، اور اس قسم کے رویے اور قوانین سے اللہ عزوجل کا جو بندوں پر حق ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے۔ انہیں آخر جمہوریت کی کیا بات پسند آتی ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں :"نظام جمہوریت اس لحاظ سے دیگر نظاموں سے ممتاز ہے کہ اس میں ایک شخص مستقل حاکم نہیں رہتا، بلکہ وہ ایک عرصہ تک حکومت کرتا ہے پھر کوئی دوسرا آ جاتا ہے ، اور اس وجہ سے وہ سارا مال اپنے قبضہ میں نہیں کرسکتا"، ان کی نظر میں حکومت، مال اور اسی قسم کی چیزوں کی اہمیت ہے، ان لوگوں نے کبھی اللہ عزوجل کے حق کو اہمیت نہیں دی، اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ )نظام جمہوریت کو بہترین قرار دینے کے اس نظریہ میں سیکولر افراد کے ساتھ ایسے لوگ بھی شریک ہیں جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتےہیں ۔[2] اسلام نے حاکم اور رعایا کے ایسے حقوق مقرر کئے ہیں جو کسی بھی طرح حالیہ نظام جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتے، اسلام میں حاکم کے تخت سلطنت پر فائز رہنے کے لئے چند سالوں کی حد بندی نہیں ہے ، بلکہ اسلام کے ابتدائی دور سے اسلامی حکومت تو استخلاف (نظام خلافت) کے ذریعہ ہی چلتی آئی ہے، اور حاکم اللہ عزوجل کی جانب سے رعایا میں عدل قائم کرنے کا پابند ہے(اور اس پر چند سالوں کی پابندی نہیں ہے)، نیز یہاں یہ تنبیہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے کی اصلاح صرف حاکم کے درست ہونے سے نہیں جڑی ہوئی ، بلکہ عوام کی درستی اور ان کا راہ راست پر ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ حاکم بھی تو اسی معاشرے کا ہی ایک فرد ہےجس معاشرے میں وہ رہ رہا ہے، اگر وہ معاشرہ نیک ہوگا تو حاکم بھی نیک ہوگا، اور اگر معاشرہ برا ہوگا تو حاکم بھی اسی طرح ہوگا، اللہ عزوجل کا فرمان ہے: [ وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ]( الانعام129)ترجمہ: "اور اسی طرح ہم ظالموں کوان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں ، اور بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ: "جس طرح تم خود ہوگے اسی طرح کا حاکم تم پر مسلط کیا
[1] جبکہ دین اسلام میں مسلمان اور کافر کے حقوق میں فرق ہے، کافر اگر اسلامی ریاست میں رہتا ہے تو جزیہ ادا کرتا ہے اور ذمی بن کر رہتا ہے، جبکہ مسلمان پر کوئی جزیہ نہیں ، ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہےء حکمران کے انتخاب اور اس کی بیعت میں ذمی کا کوئی اعتبار اور شمار نہیں ، اور اسی طرح کے دیگر حقوق ہیں جن میں مسلمان اور ذمی یا کافر کے درمیان واضح فرق موجود ہے ۔لیکن اس بات کا یہ مقصد نہیں کہ اسلام میں اقلیتوں کے کوئی حقوق نہیں بلکہ جو حقوق اقلیتوں کو اسلام نے دیئے ہیں اس کا کسی مذہب اور ریاست کے ہاں تصور بھی نہیں ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلم کی جان ومال اور عزت کی حفاظت بعینہ اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح ایک مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کیا جاتا ہے، صحیح بخآری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : "جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گاجبکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کے فاصلہ سے آتی ہے"۔(بخاری : 3166)۔ لیکن امور سلطنت ، معیشت و معاشرت میں فیصلہ سازی و مشورہ کا حق صرف مسلمانوں کو ہے ، کوئی غیر مسلم اسلامی ریاست کے امور سلطنت و عدالت میں نہ کوئی اختیار رکھتا ہے نہ کسی قسم کی شراکت داری کا حق رکھتا ہے۔(مترجم) [2] بلکہ بہت سے افراد تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تحریکوں کا نام تو اسلامی رکھا ہوا ہے لیکن ان کی بھرپور حمایت ، وتائید اور مکمل جدوجہد صرف اسی نظام کے گرد گھومتی ہے، اور اس نظام کی حفاظت اور دفاع کو ہی وہ اپنی لاعلمی اور جہالت کی بناء پر کار ثواب بلکہ جہاد تک کادرجہ دیتے ہیں۔(مترجم)