کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 36
مقابلہ میں بہتر ہے اور کم نقصان دہ ہے، جبکہ ایسا سمجھنا ان کی بہت بڑی غلطی ہے، اور اس حقیقی اصلاح کی اصلیت سے لاعلمی ہے جس پرگامزن رہنا اور اس کیلئے کوشش کرتے رہنا علماء اسلام پر واجب ہے، کیا اصلاح یہی ہے کہ امت کا حال درست کرنے کے لئے مغرب سے نظام اور طرز حکمرانی درآمد کی جائے؟کیا یہی وہ منہج ہے جس پر چلنے کا اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے؟۔ پھر ذرا یہ تو بتائیے کہ ڈیموکریسی ( نظام جمہوریت ) کا معنی کیا ہے؟، اس ( نظام )کا مطلب ہے" لوگوں کی حکومت لوگوں کے لئے"، اور یہ اللہ عزوجل کے ساتھ صریح کفر ہے ، کیونکہ (اس نظام میں ) لوگ ایک دستور (قانون) بناتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے اپنے فیصلے کرتے ہیں ، اور یہی در حقیقت طاغوت کی حکمرانی (کو نافذ کرنا ) ہے، ایک رخ تو اس نظام کا یہ ہے ، دوسری جانب اس نظام میں بندوں پر اللہ کا جو حق ہے وہ سرے سے غائب ہے، کیونکہ نظام جمہوریت کو نافذ کرنے کا مطلب [1]ہے مرجعیت[2]کوضائع کردینا اور کتاب وسنت کے نفاذ کو ترک کردینا، تو پھر (اس معاشرہ میں ) ہوگا یہ کہ ایک
[1] بقیہ حصہ)یہ سوچ بجائے اصلاح کے خود فساد پر مبنی ہے اور مزید فتنہ کا سبب ہے۔دوسری جانب بعض جماعتیں ایسی ہیں جن کا خیال ہے کہ اس نظام میں شامل ہوکر اس کی اصلاح کی جاسکتی ہے ، اور یہ سوچ بھی یقینا خلاف اسلام ہے ، شریعت نے تو ہمیں اس بات کا درس دیا ہے کہ برائی کو برائی کے ذریعہ نہیں روکا جائے گا، جادو کا علاج جادو کے ذریعہ نہیں کیا جائے گا ، موسیقی کاعلاج قوالی کے ذریعہ نہیں کیا جائے گا، بدعات کا خاتمہ نئی بدعات کو ایجاد کر کے نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح جمہوریت کا سد باب اس میں شامل ہو کر نہیں کیا جائے گا، جبکہ یہ نظام اسلام سے متصادم ہو اور اللہ عزوجل کی حاکمیت کو کھلا چیلنج ہو، اور دوسری جانب یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود جن اسلامی جماعتوں نے اس میں شمولیت اختیار کی ان کی شمولیت سے جمہوریت میں کوئی دراڑ پڑنا تو درکنار الٹا اسلام اور مسلمانوں کو گزند ضرور پہنچی ہے اور ان کے منہج اور عقائد میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے، لہذا اس دوسری سوچ کو بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا جاسکتا ۔ البتہ اس کے حوالہ سے درست اور صحیح و حق منہج یہی ہے کہ اس نظام سے دور رہا جائے ، لوگوں کو صحیح اسلام کی دعوت دی جائے ، ایسے افراد کو اسلامی تعلیمات کے ذریعہ دینی طور پر باشعور کیا جائے جو آئندہ چل کر اس نظام کے خلاف تکفیر و تخریب سے بچ کر ایسی جد جہد کریں جو حقیقی دینی نظام کی راہ استوار کرنے میں معاون ہو۔البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہئے ، کیا اس میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں؟ کیا انتخابات میں شرکت کرنی چاہئے ؟ اس حوالہ سے میں امام اہل سنت امام البانی رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنا چاہوں گا ، امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " انتخابات کے حوالہ سے ہمارے دو موقف ہیں، علمِ شرعی سے کورے شخص کو ابتدائی طور پر ایسا محسوس ہو گا کہ ان دونوں کے درمیان تضاد ہے ، لیکن الحمد للہ ان دونوں موقف کے درمیان کوئی تضاد نہیں۔(پہلا موقف) یہ ہے کہ ہم کسی مسلمان کو انفرادی طور پر یا جماعتی حیثیت سے انتخابات میں کھڑا ہونے اور مقابلہ کرنے کا مشورہ نہیں دیتے، اور اس کی وجہ آپ جانتے ہیں۔(شیخ رحمہ اللہ نے جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کی جانب اشارہ فرمایا ہے)۔(دوسرا موقف) یہ ہے کہ اگر مسلمان کسی ایسی ریاست میں ہوں جہاں جمہوریت کاتسلط ہو اور مختلف جماعتیں پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لئے تگ ودو کر رہی ہوں اور اس موقع پر چند دیندار مسلمان انتخابات میں کھڑے ہوں ، اور یہاں پر ہم دوبارہ وضاحت کردیں کہ انتخابات لڑنے کی ہم کسی مسلمان کو نہ تجویز دیتے ہیں نہ ہی اس کے لئے جائز سمجھتے ہیں ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ بہت سے مسلمان انتخابات میں ضرور حصہ لیں گے اس لئے اگر کوئی دیندار مسلمان انتخابات میں حصہ لے تو ایک عام مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے شخص کو منتخب کرے جو اسلام کے لئے فائدہ مند اور کارآمد ہو۔اس لئے کہ ایک فقہی قاعدہ ہے کہ جب ایک مسلمان دو برائیوں میں پھنس جائے تو اسے کم نقصان والی اور نسبتاً ہلکی برائی کو اختیار کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم اور دوسری بات یہ ہے کہ آگے چل کر شیخ رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت فرمائیں گے کہ جمہوریت غیر شرعی غیر اسلامی نظام ہے اور اس کے دلائل بھی ذکر ہوں گے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس نظام کو غیر اسلامی کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس نظام کے تحت چلنے والا ہر شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ کسی عمل کے کفریہ ہونے اور اس عمل کو انجام دینے والے پر کفر کا حکم لگانے میں بہت فرق ہے، اس کے درمیان کئی مراحل ہیں جن کو طے کرنا اور ان کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ (مترجم)  [2] مرجعیت سے مراد قرآن وحدیث ہیں ، کیونکہ مرجع سے مراد وہ قانون اوردستور ہے جس کی طرف فیصلہ کے لئے رجوع کیا جاتا ہے، اور مسلمانوں کے مرجع اور ماخذ صرف اور صرف قرآن وحدیث ہیں۔(مترجم)