کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 35
جماعت کے اس دوسرے معنی کے حوالہ سے یہ کہنا بجا طور پر درست ہوگا کہ جماعت کا پہلا معنی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ دوسرے معنی والی جماعت موجود نہ ہو، یعنی مسلمانوں کے لئے غلبہ ، عزت اور نصرت اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ وہ ایک امام پر جمع نہ ہوجائیں، لہذا یہ تو ممکن ہے کہ پہلے معنی کی بنیاد پر آپ اکیلے ہی جماعت ہوں کہ آپ اس عقیدہ پر ہوں جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے، لیکن آپ کے لئے جماعت کا دوسرا معنی ثابت نہیں ہوسکتا ، کیونکہ اکیلے ہونے کی صورت میں آپ کوکبھی بھی غلبہ اور نصرت حاصل نہیں ہوسکتی، اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوسری جماعت کی شدید حرص اورخواہش رکھتے تھے ، یعنی لوگوں کا ایک امام پر جمع ہوجانا ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکمرانوں کے ظلم وستم اور مال کی لوٹ کھسوٹ پرصبر کرنے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان (حکمرانوں ) کا حق انہیں دو اور اپناحق تم اللہ عزوجل سے طلب کرو"، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ : "آپ کا کیا خیال ہے اگر حکمران ہم پر زبردستی حاکم بن بیٹھیں ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان پر ان کی ذمہ داریوں (اور اعمال ) کا بوجھ ہے، اور تم پر تمہاری ذمہ داریوں (اور اعمال) کا بوجھ ہے" ۔[1]اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حاکم پر خروج کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، کیونکہ مسلمانوں کو ایک حاکم پر جمع ہوجانے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اس حاکم کی جانب سے ملنے والے نقصانا ت کی نسبت انتہائی کم ہوتے ہیں۔ جمہوریت اور اسلام: اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم ان تحریکوں سے بچ کر رہیں جو آج کل ہمیں ڈیموکریسی (جمہوریت ) کی طرف بلارہے ہیں، اور اس تحریک کو بہت سے مبلغین نے بھی اپنا رکھا ہے ،[2] وہ کہتے ہیں کہ : "آج مسلم معاشروں کے لئے جمہوریت ہی سب سے بہترین نظام ہے، کیونکہ مسلمان معاشرے انتہائی مظلوم ہیں ، ان پر مسلط حاکم اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں اور اللہ عزوجل کی شریعت کا نفاذ نہیں کرتے"، لہذا نظام جمہوریت ان کے گمان میں حکمرانوں کے ظلم وستم کے
[1] صحیح بخاری (1864) [2] اس مقام پر چند باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شیخ رحمہ اللہ جن تحریکوں کا تذکرہ فرمارہے ہیں یہ وہ تحریکیں ہیں جو بلاد عرب اور خصوصاً دیار حرمین میں زور و شور سے چلائی جارہی ہیں اور جمہوریت جیسے مکروہ نظام کو ہر مسئلہ کا حل گردانا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک عزیز میں تو یہ بیماری ہمیں ورثہ میں ملی ہے اور ہم ابتداء ہی سے اس مکروہ نظام کے جال میں گرفتار ہیں، یعنی دیار حرمین کے مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس فتنہ کو آنے سے روک کر رکھیں ، لیکن وطن عزیز کے مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کریں ، اور جب تک جمہوریت کے مکروہ اور بدبودار نظام سے باہر نہ نکلیں اس وقت تک یہ تگ و دو جاری رکھیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تگ و دو کی نوعیت کیسی ہونی چاہئے ؟، تو اس حوالہ سے بھی مسلمانوں میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے، ایک طرف ایسے افراد ہیں جو اس کا حل تکفیر اور تخریب کاری میں تلاش کرتے ہیں ، ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو لوگ بھی جمہوریت اور دیگر طاغوتی نظام میں چل رہے ہیں ان تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر تہ تیغ کردیا جائے ،(بقیہ اگلے صفحےپر۔۔