کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 34
کا بھی ہے :[وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا} ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو"، اور اسی معنی کے ذریعہ آپ جان سکتے ہیں کہ مختلف فرقے ، گروہ اور جماعتیں ، مسلمانوں کی اس جماعت کے مفہوم سے خارج ہیں [1]، کیونکہ ان کے عقائد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد جیسے نہیں ہیں ، ان کا منہج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج جیسا نہیں ہے، اور نہ ہی ان کا راستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے، انہوں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے، بعض تو مخالفت میں حد سے گزر گئے ، بعض کی مخالفت کم رہی، لیکن جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا سی بھی مخالفت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہرحال ان سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں حوض کوثر پر تمہارا ستقبال کروں گا، جو میرے پاس آئے گا وہ اس حوض سے سیراب ہو گا ، اور جس نے ایک دفعہ پی لیا وہ دوبارہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا، میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے، میں انہیں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے، پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ حائل کردی جائے گی، میں کہوں گا کہ :وہ مجھ سے (تعلق رکھتے) ہیں ، تو مجھے بتایا جائے گا کہ: آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا اضافے کر لئے تھے ، تو میں کہوں گا: (انکے لئے ) ہلاکت ہو بربادی ہو" ۔[2] تو یہ لوگ مسلمان ہوں گے [3]لیکن انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دور ہٹادیا جائے گا، کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدے، عمل، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منہج سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جو منہج اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر نازل کیا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تا حیات اس منہج پر قائم رہیں ۔ 2۔ مسلمانوں کا ایک امیر پر جمع ہوجانا، اور اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ: "تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ہوتے ہوئے مسلمان کے دل میں غلول (خیانت ) نہیں رہ سکتی (۱) اپنے عمل کو اللہ عزوجل کے لئے خاص کرلینا (۲) مسلمانوں کے ائمہ (علماء اور حکمران) کے لئے خیر خواہی کرنا، (۳) مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا" ۔
[1] یہاں پر ایک بات قابل ذکر وتنبیہ ہے کہ مسلمانوں کی اصل جماعت کی طرف بلانا یا اس کی دعوت دینا ، فرقہ واریت اور گروہ بندی میں شامل نہیں ، بلکہ یہ تفرقہ کی ضد اور اجتماعیت کی اساس اور بنیاد ہے۔ یقینا ً اصل جماعت و منہج پر قائم رہنا اور اس کی طرف بلانا ہی دینداری اور مقصود دین ہے۔ہر دور میں اور خصوصا عصر حاضر میں اس منہج و دعوت کی پہچان یہ ہے کہ اس میں کسی امتی کی پیروی کی دعوت نہیں ہوگی چاہے وہ امتی کتنا ہی صاحب شرف و فضیلت ہو، بلکہ محض مسلمانوں کے یکتا و بے مثل قائد و رہنما یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت ہوگی۔اور یہ انفرادیت اور امتیاز صرف منہج اہلحدیث ہی کا خاصہ ہے کہ جس میں محض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری و فرمانبرداری کا درس دیا جاتا ہے۔ لہذا منہج اہلحدیث کی طرف بلانا یا اس کی دعوت دینا فرقہ واریت نہیں بلکہ اجتماعیت ہے ، اور اختلاف نہیں بلکہ اتفاق و اتحاد ہے۔(مترجم) [2] صحیح بخاری (کتاب الرقاق: 6212) [3] یہاں پر شیخ رحمہ اللہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ جماعت کے مذکورہ مفہوم سے خارج افراد دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہیں ، نہ ہی وہ کافر ہیں بلکہ وہ اپنی بدعات کے لحاظ سے وعید ِجہنم کے مستحق ہیں ، اگر ان کی بدعات کفریہ ہیں تو وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں ، اور اگر ان کی بدعات کفریہ نہیں ہیں تو وہ مشیئت الہی کے تحت ہیں ، اللہ عزوجل چاہے تو انہیں معاف فرما کر جنت میں داخل فرماد ے چاہے تو انہیں جہنم کا عذاب دے کر پھر جنت میں داخل فرمادے ۔(مترجم)