کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 33
پوچھا کہ : "صراط مستقیم کیا ہے؟"، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس راستہ کے ایک کنارے پر چھوڑا ہے اور اس کا دوسرا کنارہ جنت میں ہے، اس کے دائیں طرف بھی راستے ہیں اور اس کے بائیں طرف بھی راستے ہیں اور ان راستوں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں جو وہاں سے گزرنے والوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں ، تو جو شخص ان راستوں پر چل پڑا اس کا اختتام جہنم پر ہوگا، اور جو سیدھے راستے پر چلتا رہا وہ جنت تک جا پہنچے گا، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:[ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ] ۔
جماعت سے کیا مراد ہے؟
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : احادیث میں ذکر کردہ جماعت کے معنی و مراد کے حوالہ سے علماء کے پانچ مختلف اقوال ہیں:
1 اس سے مراد اہل اسلام کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
2 اس سے مراد علماء اور مجتہدین ہیں۔
3 اس جماعت سے مراد صحابہ کی جماعت ہے۔
4 اس سے مراد اہل اسلام کی جماعت ہے جب وہ کسی معاملہ پر مجتمع ہوجائیں تو دیگر اہل مذاہب پر واجب ہے کہ ان کی پیروی کریں ۔[1]
5 امام طبری رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جو کسی امیر (حکمران) پر جمع ہو جائے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے، اور جب مسلمان ایک شخص کے حاکم ہونے پر اور اسے رہنما بنانے پر متفق ہوجائیں تو اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے یا اختلاف کرنے سے منع فرمایا ہے ۔[2]
جماعت کے معنی میں اہل علم کے کلام کا خلاصہ ، اور جس پر تمام دلائل (احادیث ) میں تطبیق ہوجاتی ہے :
وہ یہ ہے کہ اس سے مراد دو باتیں ہیں:
1۔ اس سے مراد وہ جماعت ہے جو اس عقیدہ اور عمل پر جمع ہوجائے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تھے ، اسی لئے "حدیث افتراق" [3] میں ہے کہ جب صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جماعت ناجیہ (وعید جہنم سے نجات یافتہ جماعت ) کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہی جماعت ہے" [4]۔ اور یہی معنی اللہ عزوجل کے اس فرمان
[1] اس قول کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے کسی قائل کی طرف منسوب نہیں فرمایا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ قول انتہائی ضعیف بلکہ باطل ہے۔
[2] الاعتصام (2/77)
[3] وہ حدیث جس میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہتر (73)فرقوں میں بٹ جانے کا ذکر ہے۔
[4] ابن ماجہ (کتاب الفتن :3993)