کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 32
کہ(اس آیت سے گزشتہ ) ان دو آیات [1]میں ہے [ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ]اور [ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ]، اور اللہ تعالی تمہیں ان آیات میں بیان کردہ احکامات کی تابعداری کا حکم دے رہا ہے اور وہی اس کا راستہ ہے، یعنی اس کا وہ راستہ اور وہ دین جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے، " مُسْتَقِـيْمًا " یعنی سیدھا راستہ جس میں حق سے روگردانی نہ ہو، " فَاتَّبِعُوْهُ " یعنی اس پر عمل پیرا ہوجاؤ، اور اسے اپنے آپ کے لئے مشعل راہ بنا لو، " وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ " اس راستہ کے سوا کسی اور راہ پر گامزن نہ ہوجانا، اس کے سوا کسی اور طریقہ کو اپنا مشعل راہ نہ بنا نا، نہ ہی اس دین کے برخلاف کسی اور دین کو اختیار کرنا ، چاہے وہ یہودیت ہو ،عیسائیت ہو، مجوسیت ہو، بت پرستی ہو یا اس کے سوا کوئی اور مذہب ہو، کیونکہ یہ سب ادیان محض بدعا ت و گمراہی ہیں ،" فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ"اگر تم نے ایسے راستوں اور ادیان کی پیروی کی جن کی اللہ عزوجل سے کوئی نسبت نہیں ہے تو یہ راہیں تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گی،"عَنْ سَبِيْلِهٖ" یعنی اللہ عزوجل کے راستہ سے اور اس کے دین سے جسے اللہ نے مقرر کیا اور اسے پسند کیا ہے، اور وہ درحقیقت صرف اسلام ہے، اور یہی وہ دین ہے جس کی وصیت اللہ عزوجل نے تم سے پہلے آنے والے انبیاء اور ان کی امتوں کو کی" ۔[2]
پھر ابن جریر رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث ذکر کی ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: "یہ اللہ کا راستہ ہے "، پھر اس لکیر کے دائیں اور بائیں جانب کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں ، ان میں سے ہر ایک راستہ پر ایک شیطان کھڑا ہے جو اس راستہ کی طرف بلا رہا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :[ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ]، پھر ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے
[1] جن دو آیات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ آیات ہیں :(1)[ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ]
ترجمہ: ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں جو کچھ حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے یہ کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا کسی چیز کو، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اور یہ کہ قتل نہیں کرنا اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے کہ روزی ہم ہی دیتے ہیں تمہیں بھی اور انہیں بھی، اور (یہ کہ) قریب نہیں جانا (بے شرمی اور) بےحیائی کے کاموں کے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے، اور یہ کہ تم لوگ قتل نہیں کرنا کسی ایسی جان کو جس کو حرام ٹھہرایا ہو اللہ نے مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی تاکید فرمائی ہے اس نے تم کو تاکہ تم لوگ عقل سے کام لو"۔
(2) وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۚ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي ۚ وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
ترجمہ: اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو ان کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
[2] تفسیر طبری (5/396)