کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 31
بات ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے" ۔[1] اللہ عزوجل کا فرمان ہے: [وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ] ترجمہ:" اور کہو کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس تم اسی پر چلو، اس کے سوا دوسرے راستوں پر نہیں چلنا، کہ وہ تم کو ہٹا دیں اس کی راہ (حق وصواب) سے، اسی کی تاکید فرمائی ہے اس نے تم کو تاکہ تم لوگ بچ سکو"۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ : اے لوگوں ! یہ وہ وصیت ہے جو تمہارے رب نے کی ہے ، جو
[1] بقیہ)نہیں بلکہ اللہ عزوجل ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : { وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ } (الصافات: 96)، ترجمہ :اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو"۔ منزلہ بین المنزلتین : یعنی دو منزلوں کے درمیان ایک منزل ، دراصل یہی وہ مسئلہ ہے جس پر واصل بن عطا نے امام حسن بصری رحمہ اللہ سے اختلاف کیا اور علیحدہ ہوگیا۔ اس اصول کا معنی یہ ہے کہ گناہ گار شخص کو مومن قرار نہیں دیا جائے گا، لیکن اسے کافر بھی نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ ان دو منزلوں کے درمیانی منزل پر ہے، اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو مومن بن جائے گا اور اگر وہ توبہ کے بغیر فوت ہوگیا تو وہ دائمی جہنمی ہے۔ جبکہ شریعت کے نصوص و دلائل قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ ایسا شخص جو کلمہ گو ہو اگر اس سے کچھ گناہ سرزد ہوجائیں یا وہ کبائر گناہ کا ارتکاب کرلے تو وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ، اسے اس کے اصل ایمان کی بدولت مومن کہا جائے گا، اور درجات محض دو ہی ہیں ، یا مومن ہے یا کافر ہے ، جیسا کہ اللہ عزوجل کافرمان ہے : {إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ إِمَّا شَاكِرًا وَّإِمَّا كَفُوْرًا } (الا نسان: 3)، ترجمہ: "بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا"۔ (۴)وعدہ اور وعید: اس سے ان کی مراد ہے کہ آخرت میں اہل کبائر پر وعید کا نفاذ ہوگا ، اور اللہ عزوجل ان کے معاملہ میں کسی کی شفاعت قبول نہیں کرے گا ، انہیں جہنم سے نجات نہیں دے گا، اور وہ دائرہ اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہیں۔ جبکہ قرآن و حدیث کے بیشمار دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اس امت کے اہل کبائر جنہوں نے شرک نہ کیا ہو ان کا معاملہ اللہ عزوجل کی مشیئت و ارادہ کے تحت ہے چاہے تو اللہ عزوجل انہیں عذاب دے کر جنت میں داخل فرمادے ، چاہے تو انہیں بغیر عذاب کے جنت میں داخل فرمادے ، اسی طرح اہل کبائر شفاعت کے بھی حقدار ہیں ، اور انہیں شفاعت کا فائدہ بھی پہنچے گا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي ،(مسند احمد : 12810) ترجمہ:"میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لئے ہے"۔ (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: اگر چہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک دینی فریضہ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے، لیکن معتزلہ کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ ہے کہ گناہ گار حکمرانوں کے خلاف خروج کیا جائے ۔ جبکہ احادیث میں یہ بات واضح ہے حکمرانوں کے خلاف اس وقت تک خروج کرنا جائز نہیں جب تک کہ وہ کوئی ایسا کفریہ عمل نہ کرلیں جس کے متعلق اللہ تعالی کی جانب سے واضح دلیل و برہان موجود ہو، اور ان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے سے مسلمانوں میں مزید فتنہ اور انتشار نہ پھیلے اور خون خرابہ نہ ہو۔(مترجم)  تفسیر ابن کثیر(1؍396)