کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 30
اور رافضہ [1] (کے مختلف فرقے) اپنی گمراہیوں کے حساب سے ، اور معتزلہ[2]کے مختلف فرقے، تو یہ سب کے سب دین میں تبدیلیاں کرنے والے اور بدعتی ہیں ، اور اسی طرح وہ ظالم لوگ بھی جو ظلم وناانصافی کرنے ، حق کو مٹانے اور اہل حق کو قتل کرنے اور رسوا کرنے میں حد سے بڑھ گئے ، اور ایسے گناہ گار جو کبائر کا علی الاعلان ارتکاب کرتے ہیں اور گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں، اسی طرح خواہش پرستی میں مبتلا، ٹیڑھ پن کے متلاشی، اور بدعتی یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ اس آیت میں ذکر کردہ وعید کے زمرے میں شامل ہیں" ۔[3]
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان : " جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ"، اس کے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "اس سے مراد قیامت کا دن ہے جب اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہوں گے، یہ
[1] رافضہ ، رفض سے مشتق ہے ، رفض کا مطلب ہے انکار کرنا، انہیں رافضہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافت کے انکاری ہیں ، یا پھر اس کی ایک اور وجہ تسمیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کے ایک امام زید رحمہ اللہ جو کہ امام زین العابدین علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں انہوں نے جب ابو بکر الصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کی تکفیر سے منع کیا تو رافضہ نے انہیں چھوڑ دیا تو زید رحمہ اللہ نے فرمایا :"رفضتموني" یعنی تم نے مجھے چھوڑ دیا ۔ رافضہ کے بہت سے فرقے ہیں ، بعض نے پندرہ فرقوں کا اور بعض نے چوبیس فرقوں کا ذکر کیا ہے۔ رافضہ کا عقیدہ ہے کہ قیامت سے پہلے بہت سے بزرگ جو وفات پاچکے ہیں وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے، اسی طرح وہ تحریف قرآن کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں ، اسی طرح اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کے بھی قائل ہیں ، اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کی خلافت کو نصاً واضح فرمایا تھا ، لیکن اکثر صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور گمراہ ہوگئے۔
[2] معتزلہ اعتزال سے مشتق ہے ، اعتزال کا معنی ہے علیحدہ ہونا، منفرد ہونا۔ انہیں معتزلہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کا بانی واصل بن عطاء جو کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا شاگرد تھا وہ ان سے گناہ گار مومن پر حکم لگانے کے مسئلہ میں اختلاف کر کے ان کی مجلس سے الگ ہوا تو اس کا اور اس کے پیروکاروں کا نام معتزلہ پڑ گیا ۔ معتزلہ ایک فرقہ ہے جن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر معاملہ میں عقل کو شرعی نصوص پر مقدم کیا جائے ۔ ان کے امتیازی مسائل اور اصول پانچ ہیں :
(۱) توحید: توحید سے ان کی مراد اللہ عزوجل کی تمام صفات کا انکار ہے ، کیونکہ ان کی دانست میں صفات کے اثبات سے اللہ عزوجل کی مخلوق سے مشابہت لازم آتی ہے جو کہ شرک ہے ، لہذا اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام صفات کا انکار کردیا جائے ، اسی لئے جب بھی معتزلہ ، اللہ عزوجل کا تعارف بیان کرتے ہیں تو منفی اسلوب میں کرتے ہیں یعنی : اللہ جو نہ جسم ہے نہ جوہر ہے ، نہ عرض ہے ، نہ اوپر ہے نہ نیچے ہے ۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے خود ہزاروں آیات میں اپنی صفات بیان فرمائی ہیں ، اور اہل سنت ان تمام صفات کا اثبات کرتے ہیں ، البتہ ان صفات میں وہ اللہ عزوجل کو مخلوق کے مشابہ قرار نہیں دیتے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ عزوجل اپنی تمام صفات سے ایسے موصوف ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔
(۲) عدل : عدل سے ان کی مراد ہے تقدیر کا انکار کرنا ، کیونکہ ان کی دانست میں اللہ عزوجل کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ نہ کرے ، لہذا جو شخص بھی گمراہ ہے تو وہ خود اس گمراہی اور گناہ کو کرنے والا ہے ، اللہ تعالی نے اسے گمراہ نہیں کیا ، بلکہ انسان اپنے تمام افعال کا خود ہی خالق ہے، اللہ تعالی بندوں کے اعمال کو تخلیق نہیں فرماتا۔جبکہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے کائنات کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے بندوں کی تقدیریں لکھ دی تھیں ، اور تقدیر میں لکھا جاچکا ہے کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے ، اور اللہ تعالی ہدایت اسے ہی عطا فرماتا ہے جسے اللہ تعالی ہدایت کا مستحق سمجھے اور یہ ہدایت محض اللہ عزوجل کا فضل ہے ، اور اللہ تعالی اسے گمراہ کرتا ہے جسے اللہ عزوجل اس کے اپنے اعمال کی بدولت ہدایت کا مستحق نہ سمجھے ، اور یہ محض اللہ تعالی کا عدل و انصاف ہے۔لہذا ہدایت و گمراہی اور نیکی اور بدی اور دیگر تمام افعال کا خالق بندے (بقیہ اگلےصفحہ پر۔۔۔
[3] تفسیر قرطبی (4/165)