کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 29
نے تفرقہ بازی کی اور اختلاف کیا ، ان کے لئے اللہ عزوجل کے ہاں بہت بڑا عذاب ہے۔تو اللہ عزوجل یہ فرمارہا ہے کہ : اے مومنوں کی جماعت تم اپنے دین میں اس طرح تفرقہ بازی مت کرنا جس طرح ان اہل کتاب نے کی ، تم ان جیسے کام نہ کرنا اور اپنے دین میں ان کے طریقہ پر مت چلنا ،نہیں توپھر تمہارے لئے بھی اللہ کے ہاں ویسا ہی بڑا عذاب ہوگا جیسا ان اہل کتاب کے لئے ہے‘‘ ۔[1]
پھر ابن جریر رحمہ اللہ نے اللہ عزوجل کے اس فرمان کے متعلق سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کیا ہے کہ : ’’اللہ عزوجل نے مومنین کو التزام جماعت کا حکم دیا ہے ، اور انہیں اختلاف اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے ، اور ساتھ ساتھ مومنین کو یہ خبر بھی دی ہے کہ ان سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے ان کی ہلاکت کا سبب بھی دین میں لڑنا جھگڑنا تھا ۔[2]
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پس جس شخص نے دین میں تبدیلی کی اور ایسی بدعت ایجاد کی جس میں نہ تو اللہ کی رضا ہے نہ ہی اس کا حکم ہے، تو وہ(روز قیامت) حوض کوثر سے دھتکار ے اور دور ہٹا دئے جانے والوں میں سے ہوگا، اور ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے چہرے سیاہ ہوں گے، اور ان میں بھی سب سے زیادہ دھتکارے جانے اور جھڑک دئیے جانے والا وہ ہوگا جس نے مسلمانوں کی جماعت کی مخالفت کی اور ان کے راستے سے الگ ہوگیا ، جیسا کہ خوارج[3]اور ان کے مختلف فرقے،
[1] جامع البیان للطبری (3/385)
[2] جامع البیان للطبری (3/385)
[3] خوارج ، خارج کی جمع ہے، انہیں خوارج اس لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے بہترین لوگ یعنی صحابہ کرام کے خلاف خروج کیا ، یا پھر اس لئے بھی انہیں خوارج کہتے ہیں کہ یہ حقیقی دین سے خارج ہیں، جیسا کہ ان کے متعلق احادیث میں مذکور ہے، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خروج کیا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا ۔ خوارج کے بیس فرقہ ہیں اور ہر ایک دوسرے کو کافر قرار دیتا ہے۔ خوارج کا عقیدہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ اور جمل و صفین میں لڑنے والے تمام افراد کافر ہیں ۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب دائمی جہنمی ہے، اسی طرح یہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور غیر مسلموں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق شدید وعید بیان فرمائی ہے اور انہیں زمین پر بدترین مقتول اور جہنم کے کتے قرار دیا ہے۔
آج ہمارے زمانے میں خوارج کے فتنے نے تمام مسلمانوں کواپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں خوارج کا فتنہ موجود نہ ہو اور وہ اس سے متاثر نہ ہو، جبکہ کفار ممالک کو ان خوارج سے نہ ہونے کے برابر نقصان ہے۔ یہ اسلامی ممالک پر تو چڑھائی کرتے ہیں ، مسلم حکمرانوں پر کافر کا حکم لگا کر واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں لیکن کافر ممالک کے کافر حکمرانوں سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں۔ ان خوارج کی فتنہ پروری کی بدولت آج کافر ممالک تو کجا اسلامی ممالک میں ہی صحیح دعوت دین کو انجام دینا انتہائی دشوار معاملہ بن چکا ہے، لوگ اسلام سے متنفر ہورہے ہیں ، تکفیر کا فتنہ روزافزوں بڑھتا جارہاہے، نوجوان خاص طور پر ان کے نظریات میں گرفتار ہوکر امت مسلمہ کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس فتنہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین