کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 28
ہے، اس (میرے مخالف ) نے کہا : اس کا ایک ہی معنی کیسے ہوسکتا ہے ؟ میں نے کہا : جب مسلمانوں کی جماعت مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہے تو کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ جسمانی طور پر ایسی قوم کا ساتھ اختیار کرسکے جو مختلف جگہوں میں منتشر ہو، اور اس کے برعکس ایک ہی معاشرے میں مسلمان اور کافر، نیک اور بد لوگ اکٹھے رہے ہیں (یعنی جسمانی طور پر وہ ایک ساتھ ہیں لیکن وہ سب یکجا نہیں ہوسکتے ) ، تو جسمانی طور پر جماعت کو لازم پکڑنے کا کوئی معنی بنتا ہی نہیں ہے ، اور اس لئے بھی یہ معنی درست نہیں کہ بدنی طور پر اکٹھے ہو جانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا (اگر فکر و نظر یکساں نہ ہو) ، لہذا مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ حلال و حرام کی تفریق میں مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑا جائے ، اور جو شخص وہی بات کرتا ہے جو مسلمانوں کی جماعت کرتی ہے تو درحقیقت اسی نے جماعت کو لازم پکڑا ہے ، اور جس نے مسلمانوں کی جماعت کے منہج اور قول کے خلاف بات کی تو درحقیقت اس نے اس جماعت کی مخالفت کی جس کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے" ۔[1] تمام مہمانانِ گرامی کو المعہد السلفی کی سالانہ تقریب میں تشریف آوری پر دل کی گہرائیوں سےاھلا وسہلا کہتے ہیں۔ تفرقہ بازی اور اختلاف کی مذمت ،اور ان سے بچنے کے متعلق کتاب و سنت سے دلائل 1۔ اللہ کا فرمان ہے : { وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ؁ۙ يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ ](آل عمران (105-107) ترجمہ : تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ، سیاہ چہروں والوں (سے کہا جائے گا) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو ۔اور سفید چہرے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اللہ عزوجل یہاں پر فرمارہا ہے کہ :اے مومنوں کی جماعت! تم اہل کتاب کے ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے تفرقہ بازی کی اور اللہ کے دین ، اس کے احکامات اور ممنوعات میں اختلاف کیا، جبکہ اس معاملہ میں اللہ کے واضح دلائل نازل ہوچکے تھے ، اور وہ ان دلائل کا مکمل ادراک رکھتے تھے پھر بھی جان بوجھ کر انہوں نے اس کے برخلاف کیا، حکم الہی کی مخالفت کی اور اللہ کے عہد وپیمان کو بڑی دیدہ دلیری سے توڑا،وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ یعنی وہ اہل کتاب جنہوں
[1] الرسالۃ (474-476)