کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 26
فرماتے ہیں : "بے شک جماعت اللہ کی رسی ہے، تو اس رسی کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو" ۔[1]
جہاں تک کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کے مفہوم کا تعلق ہے تو اسے ابن قیم رحمہ اللہ نے بڑے مختصر پیرائے میں بالکل واضح کردیا ہے ، فرماتے ہیں : "اس کا مطلب ہے کہ فقط کتاب اللہ کے حکم کا نفاذ ہو، جس میں کسی کی رائے ، قیاس ، عقل ، ذوق ، کشف اور وجد جیسی خرافات کا دخل نہ ہو۔اور جو شخص ایسا نہیں کرے گا تو یقینا وہ اعتصام کے اس مفہوم سے خارج ہے،کیونکہ قرآن کو مضبوطی سے اس طرح تھامنا کہ اس کا علم حاصل کرنا، اخلاص کے ساتھ اور اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا، اور اس کے فرامین کی پیروی کرنا اور اس پر قیامت تک ڈٹے رہنا ہی دراصل دین ہے ۔[2]
2۔صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " بیشک اللہ عزوجل نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے اور تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے : (اور وہ یہ ہیں ) کہ تم صرف اللہ عزوجل کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور یہ کہ تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لو اور تفرقہ بازی نہ کرو۔۔۔۔ "۔[3]
اس عظیم حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جہاں تک اللہ عزوجل کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا تعلق ہے تو اس کا مطلب ہے اللہ کے عہد پر قائم رہنا ، یعنی اللہ عزوجل کی کتاب کی اتباع کرنا ، اس میں بیان کردہ حدود سے تجاوز نہ کرنا، اور اس میں ذکر کردہ آداب پر عمل کرنا، اور "حبل " (رسی ) کے عربی زبان میں کئی معانی مراد لئے جاتے ہیں ، اس سے مراد عہد وپیمان بھی ہے ، اور اس سے مراد کسی کو امان دینا، یا کوئی تعلق و رشتہ داری بھی ہے ، اور کسی عمل کے سبب کو بھی "حبل " (رسی) کہا جاتا ہے ، اور ان معانی میں "حبل " (رسی ) کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ عرب رسی کا استعمال انتہائی سخت حالات میں کیا کرتے تھے ، جیسا کہ جدا جدا ہوجانے والی چیزوں کو ایک ساتھ باندھ کر رکھنے کے لئے ، تو بطور استعارہ اور کنایہ ان مذکورہ معانی کے لئے بھی "حبل " (رسی ) کا لفظ بولا جانے لگا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان : "تم تفرقہ بازی نہ کرو " یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے اور ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت کا رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے ، اور یہ دراصل اسلام کے بنیادی قواعد و ضوبط میں سے ایک ہے ۔[4]
[1] الجامع لاحکام القرآن (4/156)
[2] مدارج السالکین لابن القیم (3/323
[3] صحیح مسلم (کتاب الاقضیة: 1715)
[4] شرح صحیح مسلم (12/252)