کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 25
تھے"، اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت اور زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کردے تو وہ لوگوں کے دلوں میں الفت و محبت پیدا نہیں کرسکتا، اور اس الفت اور محبت کا حصول صرف عقائد کے یکساں ہونے سے ہی ممکن ہے۔ تو اگر "اسلامیین" [1]اس امت کو متحد کرنے کے لئے ہر طریقہ اختیار کرلیں تو بھی یہ اتحاد کبھی ممکن نہیں ہوسکتا، اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ (اس امت کا) عقیدہ اس منہج کے مطابق یکساں ہوجائے جو منہج اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل فرمایا تھا۔ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : " اللہ عزوجل کی اس آیت میں مراد یہ ہے کہ : تم اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لو، اور اللہ عزوجل کے اس وعدہ پر قائم رہو جو اللہ عزوجل نے تم سے اپنی کتاب میں لیا ہے ، کہ تم کلمہ حق اور اللہ عزوجل کے اوامر کی فرمانبرداری کے معاملہ پر اپنے درمیان اجتماعیت اور الفت کی فضا قائم رکھو گے ۔[2] ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمان : { وَلَا تَفَرَّقُوْا} میں مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ چلنے کا حکم دیتے ہوئے تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین میں تفرقہ بازی سے ممانعت اور اجتماعیت اور اتفاق کی فضا قائم کرنے کا حکم موجود ہے “۔پھر آگے چل کر ابن کثیر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: "مسلمانوں کاکسی معاملہ پر اتفاق ہو جانے کی صورت میں ان سے غلطی نہ ہونے کی ضمانت بھی کئی احادیث میں مروی ہے، اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ بازی کا جو خدشہ احادیث میں مذکور ہے وہ خدشہ حرف بحرف درست ثابت ہوا ہے اور آج امت تہتر فرقوں میں بٹ چکی ہے، ان میں سے صرف ایک فرقہ ہے جو جنت کی طرف نجات پانے والا اور جہنم سے محفوظ رہنے والا ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو اسی دین اور منہج پر قائم ہیں جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ  تھے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:"حبل اللہ " سے مراد جماعت ہے، اور یہی تفسیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر کئی صحابہ سے مختلف اسانید سے مروی ہے، اور جتنے معانی بھی "حبل اللہ" کے ذکر کئے گئے ہیں وہ سب قریب قریب ہیں اور ایک دوسرے کے مفہوم میں داخل ہیں۔ بے شک اللہ عزوجل نے اتفاق کا حکم دیا ہے اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے، کیونکہ تفرقہ بازی یقینا موجب ہلاکت ہے ، اور جماعت ہی راہ نجات ہے، اور اللہ عزوجل ابن مبارک رحمہ اللہ پر رحم فرمائے، آپ
[1] اسلامیین سے شیخ رحمہ اللہ کی مراد وہ افراد اور ایسی جماعت اور ادارے ہیں جو اتحاد امت کا نعرہ تو ضروربلند کرتے ہیں اور اس کے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں ، لیکن اس جدوجہد میں وہ صحیح اسلامی منہج اور مقصد شریعت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ وحدت امت کا نعرہ اور نظریہ یقینا قابل تعریف ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس وحدت امت کو عقیدہ یا منہج کی قربانی دیکر حاصل کیا جائے، اور نہ ہی یہ اس طریقہ سے کبھی ممکن ہوسکے گا، بلکہ وحدت امت کا سب سے بہترین طریقہ وہی ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے اور جس کی طرف شیخ رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ امت کے عقیدہ کی اصلاح کی جائے، شرک اور بدعقیدگی کو ختم کیا جائے اور اللہ عزوجل کی توحید پر سب کو اکٹھا کیا جائے، تو اللہ عزوجل اپنے خصوصی فضل سے اس امت میں الفت و محبت پیدا فرمادے گا، جس طرح شیخ رحمہ اللہ میں اللہ عزوجل نے الفت و محبت پیدا فرمائی تھی۔(مترجم) [2] جامع البیان فی تاویل آی القرآن لابن جریر (3/378)