کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 21
اور مؤلف رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ : "جان لو کہ بیشک اسلام ، سنت ہے اور سنت ہی دراصل اسلام ہے، اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کےبغیر قائم نہیں رہ سکتا "۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام اور سنت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اور کسی بھی حال میں یہ ممکن نہیں ہے کہ سنت کے بغیر کوئی شخص اسلامی عقیدہ کا حامل ہو ، اور نہ یہ ہی ممکن ہے کہ کوئی بغیر اسلام کے سنت پر عمل کرسکے، تو اسلام دراصل لا الہ الا اللہ کی گواہی کا تقاضا ہے، اور سنت پر عمل پیرا ہونا "محمدرسول اللہ " کے اقرار کا تقاضا ہے، اور یہ بات بدیہی طور پر ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص بھی ان دو گواہیوں کے بغیر دائرہِ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ سنت سے الگ ہوکر قرآن کا صحیح فہم ناممکن ہے، اور اگر آپ ان لوگوں کی گمراہی جاننا چاہیں جنہوں نے سنت سے الگ ہوکر قرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کی تو آپ صحیح بخاری کی اس روایت پر غور کیجئے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے معلقا[1]مروی ہے کہ وہ خوارج کو اللہ کی بدترین مخلوق قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ:"ان لوگوں نے ان آیات کو جو کفار کے بارے میں نازل ہوئیں مومنوں پر چسپاں کر دیا"۔ تو انہوں نے قرآن کو اپنی ذاتی سمجھ کے مطابق سمجھا اور اس کا وہ معنی مراد لیا جس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور جو فرقے صحیح اسلام سے منحرف ہوگئے ان کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کو سنت کے ذریعہ سمجھنے کو ضروری نہیں جانا (اور نتیجتاً گمراہ ہوگئے)۔ سنت کے واجب العمل ہونے کے دلائل: 1۔ اللہ کا فرمان ہے : {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا} (الحشر: 7) ترجمہ:" جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ"۔ 2۔اللہ کا فرمان ہے : {قُلْ أَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِيْنَ} (آل عمران :32) ترجمہ:" کہہ دو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو پھر اگر وہ منہ موڑیں تو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا"۔
[1] ’’معلق" سے مراد ایسی روایت ہے کہ جس کی سند کا بتدائی حصہ محذوف ہو یا ساقط ہو، عام طور پر معلق احادیث کا حکم ضعیف کا ہوتا ہے ، لیکن ایسی معلق روایات جو صحیح بخاری میں ہو ں ان کاحکم مختلف ہے ، اگر وہ روایت امام بخاری معروف کے صیغہ کے ساتھ لائیں یعنی "قال" ،"روی" کہ اس نے کہا یا اس نے روایت کی تو عموما ایسی روایت صحیح ہوتی ہے ، اور اگر مجہول کے صیغہ کے ساتھ ہو یعنی "قیل" یا "روي" کہ کہا گیا ، یا روایت کی گئی، تو ایسی روایت عموما ضعیف ہوتی ہے ، اور امام بخاری کا ایسی ضعیف روایت کے لانے کا عموما کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے ، اس مقصد کو بیان کرنےکے لئے علما ء نے کافی کتب تحریر کی ہیں مثلا امام ابن حجر رحمه الله کی کتاب "تغلیق التعلیق" وغیرہ۔بہرحال مذکورہ رایت صحیح ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کتب میں سند کے ساتھ مذکور ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں (کتاب الزکاۃ ، باب شر الخلق والخلیقۃ، حدیث نمبر :1067) میں اسے ذکر کیا ہے۔(مترجم)