کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 20
ہے جو سنت کے ذریعہ قرآن کی کسی آیت کے منسوخ ہونے کو درست سمجھتے ہیں[1] ۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: ٭ حدیث "لا وصية لوارث" ترجمہ: "وارث کے لئے وصیت نہیں ہے " [2]،یہ حدیث قرآن کے اس حکم کو منسوخ کررہی ہے جس میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کی تلقین کی گئی ہے، فرمان باری تعالی ہے: { كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨ ا ښ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ } (البقرة: 180) "تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اگر وہ مال چھوڑے تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے یہ پرہیزگاروں پرحق ہے" ۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"غیر شادی شدہ مرد ، غیر شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو دونوں پر سو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے"[4]۔یہ حدیث قرآن کی اس آیت کو منسوخ کررہی ہے جس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا }(النساء: 15) ترجمہ: مسلمانو! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل (پیدا کرے)" ۔[5]
[1] سنت کے ذریعہ قرآن کے کسی حکم کے منسوخ ہونے کے حوالہ سے علماء میں اختلاف ہے، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کرسکتا ہے، سنت نہیں۔ البتہ امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ قرآن کا کوئی حکم سنت کے ذریعہ منسوخ ہوسکتا ہے ۔ فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سنت جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو وہ (حجت میں )قرآن کے برابر ہے"۔البتہ سنت سے قرآن کے کسی حکم کے منسوخ ہونے کی مثال نہ ہونے کے برابر ہے، عموماً چار یا پانچ مثالیں دی جاتی ہیں لیکن ان سب پر کوئی نہ کوئی اعتراض ہے ، جیسا کہ آگے مؤلف رحمہ اللہ نے دو مثالیں ذکر کی ہیں، ان پران کے مقام پر بات ہوگی، البتہ اس کی صحیح ترین مثال جو میرے علم کے مطابق صرف شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے وہ یہ آیت ہے : [وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوْهُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوْا عَنْهُمَا إِنَّ اللّٰہَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا](النساء: 16)،’’ اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیکوکار ہو جائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے‘‘، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے منسوخ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جسے تم قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو‘‘(جامع ترمذی ، کتاب الحدود: 1456)، اس حدیث سے واضح طور پر قرآن کی آیت منسوخ ہورہی ہے۔(مترجم) [2] یعنی جس کا حق اللہ عزوجل نے وراثت میں سے مقرر فرمادیا ہے اس کے لئے الگ سے (دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر ) وصیت نہیں کی جاسکتی ۔(مترجم) [3] اس حدیث سے قرآن کریم کی مذکورہ آیت کے منسوخ ہونے کا دعوی صحیح نہیں ہے، اس کی دو وجوہات ہیں :(۱) مذکورہ حدیث میں صرف وارث کے لئے وصیت کرنے سے منع کیا گیا ہے ، قریبی رشتہ داروں کے لئے ممانعت نہیں ہے، تو یہ قرآن کے عام حکم کی تخصیص تو ہے لیکن اسے منسوخ ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا۔(۲) سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12 میں اللہ تعالی نے ورثا ء کے حصوں کو تفصیلی طور پر بیان فرمایا ہے اور یہی دو آیات حقیقی طور پر مذکورہ آیت کو منسوخ کر رہی ہیں نہ کہ حدیث۔(مترجم) [4] صحیح مسلم (کتاب الحدود : 1690) [5] اس آیت کو مذکوہ حدیث سے منسوخ ماننا بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ زانی مرد وعورت کی یہ سزا قرآن مجید میں ذکر ہوئی ہے جیسا کہ سورۃ النور میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ} (النور: 2)" بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو"، البتہ اتنا ضرور ہے کہ حدیث میں انہیں ایک سال کے لئے جلاوطن کردئے جانے کا حکم قرآن کے اس حکم پر مزید اضافہ ہے ، لیکن اسے مذکورہ آیت کے لئے ناسخ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔(مترجم)