کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 18
٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان : ’’کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر (کھانا) حلال نہیں‘‘[1]، اللہ عزوجل کے اس فرمان کے موافق ہے کہ :{وَلَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}(البقرة: 188) ،’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ‘‘۔ ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :" اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دیتا ہے مگر جب ان کی گرفت فرماتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا "[2]، اللہ عزوجل کے اس فرمان کے موافق ہے کہ : {وَكَذٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرٰى وَهِيَ ظَالِمَةٌ}(هود: 102) ، " اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے"۔ ٭ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان : "تم لوگ عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں حاصل کیا ہے اور تم نے حکم الہی کے ذریعہ انہیں خود پر حلال کیا ہے"[3] ، اللہ عزوجل کے اس فرمان کے مطابق ہے: {وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} (النساء: 19)، "اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسرکرو"۔ 2۔ قرآن میں ذکر کردہ حکم کی وضاحت کے لئے حدیث وارد ہو۔ اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں: ٭ حدیث میں قرآن کے اجمالی حکم کی تفصیل بیان ہو۔ جیسا کہ وہ احادیث جس میں نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کے تفصیلی احکامات مذکور ہیں۔ ٭ قرآن کے مطلق حکم [4]کی قید بیان ہو ۔جیسے وہ احادیث جس میں قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں لفظ "ید" کی حدبندی کی گئی ہے ، فرمان الٰہی ہے: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا أَيْدِيَهُمَا}(المائدة: 38) ، " جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو" ، تو حدیث میں وضاحت بیان ہوئی ہے کہ ہاتھ سے مراد دایاں ہاتھ ہے اور اسے کہنی تک نہیں بلکہ کلائی تک کاٹا جائے گا۔ ٭ قرآن کے عام حکم کی تخصیص ہو۔جیسا کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں لفظ"ظلم"کی صحیح مراد حدیث میں بیان ہوئی، فرمان الہی ہے: { اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ} (الا ٔنعام: 82)، " جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن ہے۔ اور وہی ہدایت پانے والےہیں"۔اس آیت کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اس کا مطلب عام ظلم نہیں ہے ، بلکہ خاص ظلم یعنی شرک مراد ہے" ۔[5]
[1] مسند احمد (5/73) [2] صحیح بخای (کتاب التفسیر 4409) [3] صحیح مسلم (کتاب الحج : 1218) [4] مطلق سے مراد ایسا لفظ جو کسی چیز کی ماہیت اور حقیقت پر بغیر کسی قید کے دلالت کر رہا ہو(جمع الجوامع لابن السبکی 1/484)۔ جیسے عربی زبان میں "ید" ہاتھ کو کہتے ہیں اور اور اس کا اطلاق انگلیوں سے لے کر کہنی تک ہوتا ہے، تو جب بھی عام طور پر"ید " کہا جائے گا تو اس سے مراد مکمل بازو کہنی تک ہوگا جب تک کہ اس کی کوئی قید بیان نہ ہوجائے۔(از مترجم) [5] صحیح بخاری (کتاب الایمان :32)