کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 132
یہ چیز ہمیں احتیاط کا دامن تھامنے اور چوکنا رہنے سے مانع نہیں ہونی چاہئے ۔ بہرحال اسلام میں سیاست کا اپنا ایک مفہوم ہے جو ذرائع ابلاغ میں پیش کی جانے والی سیاست سے بالکل مختلف ہے۔ ایک اور بد نتیجہ کی صورت یہ بنی کہ ایسے خطبا جو محض زبان و ادب سے واقف ہیں انہیں علماء کے ساتھ لا کھڑا کیا گیا، اور یہ ایک ایسا نازیبا اختلاط ہے جس کی بنا پر مسائلِ عبادت ، اور احکام و اوامرِ شریعت ایسے افراد سے سیکھے جانے لگے جو اس کے لئے قطعی نا اہل تھے، بہت سے اسلامی ممالک میں جب ایک خطیب ریڈیو پر خبریں سننے ، یا کسی اخبار کی شہ سرخیاں پڑھنے یا ٹی و ی پر نظر دوڑانے کے بعد منبر پر براجمان ہوتا ہے تو انہی پڑھی اور سنی ہوئی خبروں کے زیر اثر خوب گرجتا اور برستا ہے ، بھڑکاتا اور دھمکاتا ہے، اور چونکہ نوجوانوں کے جذبات بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں، تو یہ خطیب ان جذباتی لوگوں کی غیرت اور حمیت سے خوب کھیلتا ہے، لیکن جذبات کا اظہار کرنے ، جوش بھڑکانے اور غیرت دلانے کا یہ کوئی شرعی طریقہ نہیں ہے۔ ایسے جوشیلے خطبا کو علماء کی صف میں شمار کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ پھر یہ خطیب اپنے خوبصورت تجزیوں ، شیریں بیانی اور چرب زبانی کی وجہ سے ان جذباتی نوجوانوں کی نظر میں ایسا عالمِ ربانی بن جاتا ہے جسے کسی کی پروا نہیں ، جبکہ در حقیقت وہ محض ایک خطیب سے بڑھ کر کچھ نہیں ، اور جبکہ وہ عالم جو انبیاء کا حقیقی وارث ہے ، جس نے اپنی عمر کا طویل عرصہ قرآن وحدیث پڑھتے پڑھاتے گزارا ہے ، اور وہ اب احکامات کا صحیح فہم اور دلائل کی اچھی طرح معرفت رکھتا ہے اسے یہ تہمت لگا کر کہ یہ تو حالات حاضرہ سے واقف ہی نہیں نوجوانوں سے دور اور تنہا کردیا جاتا ہے، جبکہ علماء پر حالات حاضرہ سے عدم واقفیت کی تہمت لگانا یکسر باطل ہے۔ سبحانك اللهم و بحمدك أشهد أن لا اله الا أنت أستغفرك و أتوب الیك