کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 131
بھول ہی جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو؟ کیا تم کچھ بھی عقل سے کام نہیں لیتے؟" ۔تو ہم عوام کے سامنے ہر موقع پر یہ بات کیوں کرتے ہیں کہ "اللہ تعالی کے نازل کرد ہ احکامات کے بغیر ہر حکم باطل ہے"، پھر یہی عوام ہمیں ایسے معاملہ میں ملوث پاتے ہیں جس سے ہم عوام کو روک رہے ہیں ، تو اس کا آخر اور کیا نتجہ برآمد ہوسکتا ہے؟ [1]۔
2۔ اس میں دین کا اجمالاً اور تفصیلاً ، عقیدہ و شریعت الغرض ہر پہلو سے ضیاع ہے اور اس سے علماء دین کی انفرادیت اور امتیاز بھی ختم ہو جاتا ہے ، ایک وہ دن تھا جب وہ اس گندی سیاست سے الگ تھلگ کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے تھے اور اپنے ارد گرد ہونے والی سیاسی جہالت سے دور تھے، لوگوں کے ہاں ان کا تعارف یہ تھا کہ دنیا کے حصول کے لئے ہونے والے تمام سیاسی جوڑ توڑ سے علیحدہ رہنے والے یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقصد بہت اعلی اور عظیم ہے ، یہاں ہمیں سیاست کے شرعی مفہوم اور عصر حاضر کی سیاست (کے درمیان فرق ) کی وضاحت ہونی چاہئے ، اس (فرق کی وضاحت )سے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ صحیح بخاری و مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کے ہاتھ میں تھی ، جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا ، اور بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اور عنقریب خلفاء ہوں گے اور بہت کثرت سے ہوں گے " ، صحابہ کرام نے دریافت کیا: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" پہلے کی بیعت سے وفا کرو اور پھر اس کے بعد جو آئے اس کی بیعت پوری کرو، ان کو ان کا حق پورا دو، کیونکہ بے شک اللہ تعالی ان سے ان کی رعیت کے متعلق ضرور سوال کرے گا" [2]۔لہذا سیاست کی شرعی تعریف یہ ہے کہ" امور امت کی رعایت و نگہبانی کرنا" ، اور آیات قرآن اور فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اسلام نے اسی غرض و غایت کو مکمل کیا ہے۔
اس شرعی سیاست کو عصر حاضر میں لاگو کرنے کے لئے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو دو قسم کے احوال سامنے آتے ہیں :
1۔ ایسے معاملات و حوادث جو ظاہر ہیں اور واقع ہو چکے ہیں ، ان واقعات و معاملات کے حوالہ سے واضح دلائل و براہین کے ذریعہ حکم الہی بیان ہو چکا ہے، لہذا اس حکم کو حتی الامکان نافذ کیا جائے گا۔
2۔ ایسے معاملات جو متوقع ہیں ، گمان کی سرحد سے باہر نہیں نکلے بلکہ صرف تجزیوں اور احتمال کی فہرستوں میں موجود ہیں، بلکہ بسا اوقات تو صرف خیالات کی حد تک ہی رہتے ہیں، تو ایسے معاملات میں قدرے احتیاط سے کام لینا چاہئے کیوں کہ ان معاملات کی کوئی بنیاد یا اساس نہیں ہے، اور موجودہ سیاست کے اکثر مسائل اسی قسم کے ظنی معاملات پر مبنی ہیں ، لیکن
[1] یقیناً اس کا نتیجہ علماء دین سے بدظنی ، دعوت دین سے دوری ، سیکولر لوگوں پر بھرپور اعتماد اور ان کے متعلق حسن ظن کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے اور آج اس نتیجہ کا ہم اپنے ملک میں واضح طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
[2] صحیح بخاری ( کتاب الانبیاء ۔ 2455) ، صحیح مسلم (کتاب الامارۃ ۔ 1842)