کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 130
تکفیر کی برائی کو جنم دیا ، اور اس تکفیر کی زد میں حکمران طبقہ براہ راست آتا ہے اور اس تکفیر کی وسعت پذیری کے نتیجہ میں عوام بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں، اور یہ غلو انسان کو عجلت اور جلد بازی کی جانب لے جاتا ہے اور یہی آج کل کے داعیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، جبکہ اہل علم کا اصول یہ ہے کہ : "جو شخص کسی چیز کی قبل از وقت جلدی کرے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے اس چیز سے محروم کر دیا جائے "۔ 5۔جمہوریت اور اس کے گھٹیا طور طریقوں پر رضامند ہو جانا ، اور یہ وہ خطرناک ترین معاملہ ہے جس میں آج کل کے ایسے داعی ملوث ہو چکے ہیں جن کی دعوت کی بنیاد قرآن و حدیث پر نہیں ہے ، یہ داعی ایک دوسرے کو جمہوریت کی طرف یہ کہہ کر بلاتے ہیں کہ : اگر تم پارلیمنٹ کے ذریعہ جمہوریت کا حصہ نہیں بنو گے تو یہ کمیونسٹ اور سیکولر قسم کے لوگ اس پارلیمنٹ پر قابض ہو جائیں گے۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ یوں کہا جائے : یہ دین حنیف سے منحرف اور گمراہ لوگ پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو شوق سے جائیں ، یہ شریعت کی نظر میں اس بات سے بہت بہتر ہے کہ ایسے داعی اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں جو اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں ، اور اس کی دو وجوہات ہیں : جمہوری انتخابات کے ذریعہ سے پارلیمنٹ میں اشتراک کے دو بڑے نقصان : 1۔ پارلیمنٹ میں اشتراک در حقیقت جمہوریت ، ارباب جمہوریت اور اسالیب جمہوریت پر رضامند ہونے کے مترادف ہے ، اور یہ بعینہ اہل باطل کے ساتھ اشتراک ہے ، اور اس سے اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ کتاب حکیم میں ہمیں منع فرمایا ہے کہ : [وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖٓ ڮ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ](النساء 140)ترجمہ: " اللہ تعالی اپنی کتاب میں یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ جب تم سنو کہ آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو وہاں ان کے ساتھ مت بیٹھو تا آنکہ یہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں، ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے" ۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ سیکولر لوگ عام مسلمانوں میں اس طرح اچھی شہرت حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کو پارلیمنٹ میں آنے اور حکومت میں اشتراک کی دعوت دیتے ہیں ، پھر یہ مسلمان انہی داعیوں سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ : اگر تم ان گمراہ سیکولر لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہو اور حکومت کا حصہ بنتے ہو تو انہیں برا بھلا کیوں کہتے ہو؟، اور یہ بات قول و فعل میں تضاد کی موجب ہے ، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ] (الصف 2)ترجمہ: " اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں" ۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : [اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ ] ( البقرۃ 44)ترجمہ: " تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے ہو مگر اپنے آپ کو