کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 129
میرے دشمنوں پر رعب طاری کرکے میری مدد کی جاتی ہے‘[1]
3۔اوّلیات (اولین حیثیت کے حامل) معاملات کی پہچان نہ رکھنا اور شرعی معاملات میں تساہل برتنا، کیونکہ ایسی دعوت جو سنت پر قائم ہو اس کی تو بنیادی شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے اہم ترین معاملہ سے ابتدا کی جائے پھر جو اس کے بعد اہم ہو اس کی دعوت دی جائے، اس طرح کہ سب سے پہلے اخلاص ِ عبادت اور اجتناب شرک کا حکم دے کر اصلاح عقیدہ کی کوشش کرے، پھر اقامت نماز، ادائیگی زکوۃ اور دیگر واجبات کی تعمیل اور حرام کردہ امور سے بچنے کا حکم دے، جیسا کہ تمام رسولوں کا انداز دعوت تھا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: [وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ](النحل 36)ترجمہ:" ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو انہیں یہی کہتا تھا) کہ محض اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو" ۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: [وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ]( الانبیاء 25)ترجمہ:’’ اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ’’میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہذا صرف میری ہی عبادت کرو‘‘۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "تو سب سے پہلے تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی کی جانب دعوت دو، اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول کرلیں تو پھر انہیں یہ تعلیم دو کہ اللہ تعالی نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں"[2]۔اور اس بات میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ دعوت کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی بہترین رہنما اور منہج کامل ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال تک دعوت الی اللہ کےفرض کی انجام دہی کرتے رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو توحید کی جانب بلاتے اور شرک سے منع کرتے رہے ، قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نماز، زکوۃ ، روزہ اور حج کا حکم دیتے ، اور قبل اس کے کہ آپ انہیں سود، زنا ، چوری اور قتل و غارت گری سے منع فرماتے ، تو لہذا یہی توحید ہی دین اسلام کی اصل غرض و غایت ہے۔
4۔ایک اور برا نتیجہ غلو کی صورت میں نمایا ں ہوا ہے، اس خود سر اور ہوش سے عاری دعوت کا یہ نتیجہ تو حتمی تھا، ایسی دعوت جس میں علماء کی مستند تحریروں کے اوراق خلط ملط کردئے جائیں اور اوائل معاملات کی تمیز باقی نہ رہے، آپ دیکھئے کہ ایسے مسلمان ممالک جہاں شریعت کا نفاذ نہیں ہے وہاں تیزی سے پھیلتی تحریک نے معمولات زندگی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو ا ہے، اور اس تحریک میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس میں گناہوں سے بیزاری کا رجحان ہوتا جس میں سر فہرست شرک ہے، اور اس تحریک کے زیر اثر فسق و فجور اور دیوانگی سے معاشرے کو پاک کیا جاتا ، لیکن اس بانجھ تحریک کے انتشار نے ان ممالک میں
[1] صحیح بخاری ( کتاب التیمم ۔ 328) صحیح مسلم ( کتاب المساجد ۔521)
[2] صحیح بخاری ( کتاب الزکوۃ ۔ 1395)، صحیح مسلم (کتاب الایمان۔19)