کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 127
عصر حاضر کےغیر سلفی علماء کی تحریروں کے خطرناک نتائج
1۔لوگوں کو ایسے خود ساختہ دانشوروں سے منسلک کر دینا جو سلف صالحین کے طریقہ پر گامزن علماء میں سے نہ ہوں ، جس کا انتہائی بدترین نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور قرآن وحدیث کو فہم سلف صالحین کی بنیاد پر سمجھنے کے درمیان یہ دانشور حائل ہوجاتے ہیں ، یہ لوگوں کو علماء سے یہ کہہ کر بے رغبت کرتے ہیں کہ یہ لوگ تو کتابوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ، اپنے آپ میں بند ہیں ، انہیں نہ سیاست کا پتا ہے نہ حالات و واقعات کا، اور ان سب باتوں کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس امت کے نوجوان عقیدہ توحید، حفاظتِ سنت وتعلیم حدیث کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو بس سطحی قسم کی باتیں ہیں۔
2۔سیاست کو شریعت پر غالب کرنا۔ لہذا آپ ملا حظہ کریں گے کہ ان کی دعوت کا بیشتر حصہ محض سیاست پر مبنی ہے ، اور اس معاملہ میں وہ ان سیکولر لوگوں کے مشابہ ہوجاتے ہیں جو بس دنیا کی ظاہری زندگی کے احوال سے واقف ہیں اور اخروی زندگانی سے غافل ہیں ، اور ان کا یہ معاملہ بالآخر ان کی دعوت الی اللہ کی مہم کو متأثر کرتا ہے ، اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ یہ مسلمانوں کو پہنچنے والے مصائب اور تکالیف کا ذمہ دار محض دشمنان اسلام کو ہی ٹھہراتے ہیں ، جبکہ یہ طرز ِفکردرحقیقت منہج ِالہی اور تعلیمات نبوی سے کوسوں دور ہے اور اس انداز فکر کے بڑے نقصانات اور منفی اثرات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
٭ امراض امت کی تشخیص اور طریقہ علاج میں قرآن و حدیث کی مخالفت ، وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے غزوہ احد اور حنین کی ہزیمت کا سب سے پہلا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی قرار دیا تھا ، اگرچہ کفار نے مسلمانوں کے ساتھ جو کیا سو کیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: [وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ] (آل عمران 152)ترجمہ: "بلاشبہ اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا جب کہ تم (جنگ احد میں) کافروں کو اللہ کے حکم سے خوب قتل کر رہے تھے تا آنکہ تم نے بزدلی دکھلائی اور (نبی کے) حکم میں جھگڑنے لگے۔ اور اپنی پسندیدہ چیز (مال غنیمت) نظر آ جانے کے بعد تم نے (اپنے سردار کے حکم کی) نا فرمانی کی " ۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:[ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ](التوبہ 25)ترجمہ:" اور حنین کے دن (بھی تمہاری مدد کی تھی) جبکہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا مگر وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی" ، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:[ اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ] ( آل عمران 165)ترجمہ:" بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ ’’یہ کہاں سے آ گئی؟‘‘ حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو