کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 125
اور نئی بات لے کر آؤں گا"، خبردار اس کی نئی بات سے بچنا، کیونکہ اس کی یہ نئی بات یقیناً گمراہی ہے ، اور تم نیک اور دانا آدمی کی غلطی سے بھی متنبہ رہو، کیونکہ شیطان کبھی کبھار نیک و دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ نکلوا سکتا ہے، اور کبھی کبھار منافق بھی کلمہ حق کہہ سکتا ہے اور جہاں سے بھی حق سنو اسے حاصل کر لو کیونکہ حق (کی نشانی ہے کہ اس ) پر نور ہوتا ہے " معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ : "نیک و دانا کی گمراہی کیسے معلوم ہو؟"، تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " نیک اور دانا کی ایسی بات جو تمہیں دہلا دے اور تم سوچ میں پڑ جاؤ کہ یہ اس نے کیسی بات کہی ہے؟، البتہ یہ اجتناب صرف اسی حد تک ہونا چاہئے اور اس وجہ سے اس سے تعلق ختم نہیں کرنا، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس رائے سے رجوع کر لے ، اور علم اور ایمان تا قیامت اپنی جگہ موجود رہیں گے جو انہیں تلاش کرے گا وہ انہیں پا لے گا " [1]۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عالم کی لغزشیں اس کے پیروکارو ں کے لئے ہلاکت خیز ہیں"، پوچھا گیاوہ کیسے ؟ ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " ایک عالم اپنی رائے سے کوئی بات کہتا ہے پھر اسے اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے کسی عالم کی بات ملتی ہے تو وہ عالم تو اپنی رائے ترک کردیتا ہے ، لیکن اس کے پیروکار اس کی رائے پر ہی ڈٹے رہتے ہیں"۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب ہمیں عالم کی لغزشوں سے متنبہ کیا گیا ہے اور ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم پر جس چیز کا سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ بھی عالم کی لغزش ہی ہے ، اس کے باوجود ہمیں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ ہم عالم سے دوری اختیار نہ کریں ، لہذا ایسا شخص جس کو اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعہ شرح صد ر عطا فرمائی ہو اگر اسے کسی امام کا (دلیل کے لحاظ سے ) کوئی کمزور قول ملے تو اسے اس امام کے مقلدین سے ذکر نہ کرے [2]، بلکہ اگر اسے اس قول کی اس امام کی طرف نسبت صحیح ہونے کا یقین ہو تو اس قول کے متعلق خاموشی اختیار کرے اور اگر اسے اس کی نسبت میں شک ہو تو اسے اس اما م کا قول گرداننے میں توقف اختیار کرے، کیونکہ بہت سے اقوال جو اماموں کی طرف منسوب ہیں ان کی نسبت میں کوئی حقیقت ہی نہیں ہے، اور بسا اوقات ان اماموں کے پیروکار بہت سے مسائل کا امام کے ذکر کردہ قاعدہ کی بنیاد پر استنباط کرتے ہیں ، جبکہ اگر امام کے علم میں ہوتا کہ اس قاعدہ کو اختیار کرنےسے ایسے مسائل لازم آتے ہیں تو وہ ہرگز بھی ان قواعد کا التزام نہ کرتے، اسی لئے یہ ایک اصول ہے کہ کسی امام کے قول سے اگر کوئی مسئلہ لازم آتا ہو تو اس مسئلہ کو بھی امام کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ، البتہ شرعی دلائل سے جتنے بھی مسائل لازم آتے ہوں وہ سب شریعت کی طرف منسوب کئے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالی کے قول میں کوئی تناقض نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالی کے ہر فرمان سے جو مسئلہ بھی لازم آئے وہ حق ہے، البتہ
[1] سنن ابو داود : کتاب السنۃ (4611)
[2] تاکہ مقلدین کہیں اپنے امام کے اس کمزور قول کی تقلید ہی نہ شروع کردیں۔