کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 121
کر عبادت کرتے ہیں پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر الله تعالی کی شان میں گستاخی کریں گے" [1]۔تو اللہ تعالی نے مشرکین کے معبودان باطلہ پر دشنام طرازی سے منع فرمادیا کیونکہ یہ اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کا باعث بنتی ہے، جبکہ جناب باری تعالی میں گستاخی سے روکنے کی مصلحت معبودان باطلہ پر دشنام طرازی کی مصلحت سے کہیں بڑھ کر ہے، اور یہ حکم اس بات کی تنبیہ ہے بلکہ یوں کہیں کہ بالکل صراحت ہے کہ ایسا جائز کام جو حرام کام کا ذریعہ بنے وہ بھی ناجائز ہے۔ اس کی ایک اور مثا ل اللہ تعالی کا موسی اور ہارون علیہما السلام سے یہ خطاب ہے کہ [ اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ](طہ 43-44) ترجمہ: " ہاں، فرعون کے ہاں جاؤ، وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ دیکھو، اسے نرمی سے بات کہنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (اللہ سے) ڈر جائے" ۔ اللہ تعالی نے موسی اور ہارون علیہ السلام کو اپنے سب سے بڑے منکر اور سرکش دشمن کے لئے بھی یہ حکم دیا کہ ا س سے نرمی سے بات کرنا، تاکہ کہیں بات کی سختی اسے حق سے متنفر کرنے اور اس کی بے صبری کا ذریعہ نہ بن جائے اور اس پر حجت قائم نہ ہو سکے، جبکہ وہ سخت سے سخت بات کا مستحق تھا ، لیکن اللہ تعالی نے موسی اور ہارون علیہ السلام کو اس جائز سختی کو بھی اختیار کرنے سے منع فرما دیا تاکہ اس سختی کے وہ نتائج برآمد نہ ہوں جو اللہ تعالی کو ناپسند ہیں۔ اس کی ایک اور مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل نہ کرنا ہے، تاکہ کہیں یہ قتل و غارت لوگوں کو اسلام سے متنفر نہ کردے اور تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ، کیونکہ یہ بات اسلام کو قبول کرنے اور نہ کرنے والے دونوں کے لئے اسلام سے نفرت کا باعث بنتی ، اور اسلام سے نفرت کا نقصان منافقین کو قتل نہ کرنے کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے، اور لوگوں کے دلوں میں اسلام سے الفت پیدا کرنے کی مصلحت منافقین کو قتل کرنے کی مصلحت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے مکی دور میں مسلمانوں کو مشرکین کی زیادتیوں کا بدلہ لینے اور مقابلہ کرنے سے منع فرما دیا تھا ، کیونکہ انتقام لینا اور دو بدو مقابلہ کرنا ایک بہت بڑے بگاڑ اور خرابی کا سبب بن سکتا تھا جو کہ ان کی اذیت برداشت کرنے اور اس پر صبر کرنے کی مشقت سے کہیں بڑھ کر تھا، اور مسلمانوں کی جان ، اہل و عیال اور دین کی حفاظت کی مصلحت انتقام لینے اور مقابلہ کرنے کی مصلحت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں پر خروج کرنے اور ان سے قتال کرنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ نماز قائم کرتے ہوں ، چاہے یہ حکمران ظلم و ستم ہی کیوں نہ روا رکھیں، اور یہ ممانعت دراصل اس بہت بڑے فساد اور شر کے دروازے کو بند کرنے کے لئے تھی جو کہ بد قسمتی سے آج واقع ہو چکا ہے، آج حکمرانوں کے خلاف خروج
[1] الانعام (108)