کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 120
دلانا چاہتے ہیں"، تو میں نے کہا : آپ ایسا نہ کیجئے ، ابھی حج کا موسم ہے ہر قسم کے لوگ جمع ہیں وہ آپ کی مجلس پر چھا جائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا درست مطلب سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے مطلب تراشتے پھریں گے، آپ ذرا مدینہ پہنچنے تک ٹھہر جائیں جو کہ دار ہجرت ہے اور سنت کا قلعہ ہے ، آپ وہاں مہاجرین اور انصار صحابہ کے ساتھ مجلس فرمائیں وہ آپ کی بات کو صحیح طور پر ذہن نشین رکھیں گے اور اس کے درست معنی ہی اخذ کریں گے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " اللہ کی قسم میں مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلے اسی حوالہ سے بات کروں گا" ۔ 2۔ایک ابتدائی طالب علم کو منتہی طالب علم والی تعلیم نہ دی جائے ، بلکہ تفصیلی علوم سے پہلے ابتدائی علوم سے روشناس کرایا جائے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : [كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ] ترجمہ:" تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم کتاب الہی لوگوں کو سکھلاتے ہو اور اس وجہ سے کہ خود بھی پڑھتے ہو"، اس فرمان الہی کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "وہ لوگوں کو بڑے علوم کی تعلیم سے پہلے ابتدائی علوم کی تربیت دیں"۔ 3۔سد الذرائع کے قاعدہ کا خیال رکھنا [1]۔اور یہ ذرائع دو انواع پر مشتمل ہیں : (۱) کسی عمل کو انجام دینے میں مصلحت زیادہ ہو اور فساد کم ہو ۔ (۲) کسی کام کی انجام دہی میں خرابی زیادہ ہو اور فائدہ کم ہو ۔اور یہ دوسری نوع چار اقسام پر مشتمل ہے: 1۔ایسا عمل جو ہمیشہ فساد کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنے۔جیسا کہ کسی نشہ آور مشروب کو پینے سے ہمیشہ نشہ ہی طاری ہوتا ہے ، اور زنا کرنے سے حرمتیں پامال ہوتی ہیں اور نسب و نسل میں شکوک شبہات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ 2۔ ایسا عمل جو خود تو جائز ہو لیکن اس عمل کو کسی حرام کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ جیسا کہ حلالہ کرنے کے لئے نکاح کرنا۔ 3۔ ایسا عمل جو خود تو جائز ہو اور اسے حرام کام کا ذریعہ بھی نہ بنایا جائے لیکن عمومی طور پر وہ کام فساد کی طرف لے جائے۔ جیسا کہ ممنوعہ اوقات میں نماز ادا کرنا، بیوہ کا دوران عدت زیب و زنیت اختیار کرنا۔ 4۔ایسا عمل جو خود مباح ہو اور کبھی کبھار ہی فساد کا ذریعہ بنے[2]، اور عموماً اس کا فائدہ اس کے نقصان سے زیادہ ہو، جیسا کہ رشتہ کرنے سے پہلے ایک نظر لڑکی کو دیکھ لینا ، اور اسی طرح ممنوعہ اوقات میں ایسی نمازیں ادا کرنا جن کا کوئی سبب ہو [3]۔ اور سد ذرائع کے قاعدہ کے حوالہ سے قرآن و حدیث میں کافی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: [وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ] ترجمہ: " اور دشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ
[1] سد ذرائع سے مراد ایسے اعمال کی روک تھام کرنا ہے جو خود تو حرام نہ ہوں البتہ وہ حرام کی طرف لے جانے کا باعث ہوں اور اسی وجہ سے انہیں بھی حرام قرار دیا گیا ہو ، یا ان کے برے نتائج کے پیش نظر ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہو۔ [2] تو ایسا عمل جب بھی فساد کا ذریعہ بنے گا وہ چاہے مباح ہی کیوں نہ ہو اس وقت اسے حرام ہی قرار دیا جائے گا۔ [3] جیسا کہ تحیہ المسجد، تحیہ الوضو، یا نماز جنازہ وغیرہ۔