کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 119
کے لئے فہم صحابہ کو تسلیم کرے گا [1]۔اس رویے کے چند اہم اسباب درج ذیل ہیں: ٭ نفس انسانی میں وہ چھپی ہوئی خواہشات جو واضح دلیل پر عمل کو چھوڑنے پر اکساتی ہیں۔ ٭ طلب علم کے فوائد کے حصول میں جلد بازی کرنا، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ادنی طالب علم خود کو مجتہد مطلق کے درجہ میں گمان کرتا ہے۔ ٭ شریعت کے مقاصد سے نابلد ہونا۔ چند ایسے اسباب کا ذکر جو اللہ کی توفیق سے تفرقہ بازی اور اختلاف سے بچا سکتے ہیں: 1۔علمِ شرعی کے ہر باب کی نشر و تبلیغ شریعت کا مقصود نہیں ہے، بلکہ شرعی علم کے غالب حصہ کی نشر و تبلیغ تو مطلوب ہے ، البتہ کچھ حصہ ایسا ہے جس کے عوام میں نشر کی یا تو قطعا ممانعت ہے یا حالات ، زمانہ اور افراد کے پیش نظر اس کا حکم تبدیل ہوتا رہتا ہے، اور یہ حصہ اگرچہ حق ہوتا ہے لیکن عوام میں اس کی تبلیغ سے فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ : "لوگوں کو ایسی احادیث بیان کرو جو وہ سمجھ سکتے ہوں " اور ایک روایت کے الفاظ ہیں: "جو ان کی عقلوں میں سما سکتی ہوں ، کیا تم یہ چاہتے ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا جائے"[2] ۔ اور صحیح بخاری و مسلم کی حدیث جو کہ جناب معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے توحید کا اجر سننے کے بعد فرمایا:" کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم انہیں اس کی خوشخبری نہ دینا ورنہ وہ اسی پر تکیہ کرکے بیٹھ جائیں گے"[3] ۔ اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ : "ایک شخص امیر المومنین جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: فلاں آدمی کہہ رہا تھا کہ اگر امیر المومنین فوت ہوگئے تو ہم فلاں شخص کی بیعت کرلیں گے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "آج شام کو میں (خطبہ کے لئے ) کھڑا ہو کر ان بدمعاشوں کو متنبہ کروں گا جو صحابہ کرام کو اشتعال
[1] عصر حاضر میں اس کی سب سے واضح مثال خود ساختہ اسکالر جاوید غامدی ہیں جنہوں نے دین آسان ہے کے خوبصورت نعرے تلے مسلمات دین کو ڈھانے کی پوری کوشش کی ہے ، جو علماء اسلام کے بیان کردہ اصول و مبادی پر اپنے خود ساختہ نقد و تحقیق کے گھوڑے دوڑا کر عوام الناس کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ متقدمین و متاخرین تمام علماء دراصل ظالم ِ انسانیت تھے جنہوں نے لوگوں پر ہر مفید چیز کو حرام کردیا تھا ، اور پھر جاوید صاحب ہی ایک وہ یکتائے روزگار ، محسن انسانیت ، علمی شخصیت ہیں جنہوں نے لوگوں کو اس ظلم و استبداد سے نجات دلائی ہے۔جاوید صاحب کے انسانیت پر کئے گئے چند خود ساختہ احسانات یوں ہیں: (۱) موسیقی حلال ہے۔ (۲) مرد و زن کے اختلاط میں کوئی حرج نہیں ۔(۳) سود لینا نہیں چاہئے البتہ سود دینا جائز ہے۔(۴) پردہ کرنا واجب نہیں ۔(۵) خواتین ہر کھیل کے لحاظ سے اس کا مخصوص لباس پہن سکتی ہیں۔(۶) تمثیل کاری (اداکاری) میں کیا گیا نکاح جس میں ایجاب و قبول بھی ہو اور اسی طرح تمثیل کاری کے تقاضوں (!) کے تحت دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔(۷) داڑھی کا اسلام سے تعلق نہیں ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے احسانات ہیں جو جاوید صاحب نے اس امت پر کیے ہیں اور نجانے کتنے ہیں جن کا ہونا باقی ہے۔ اس روش کی بنیادی وجہ وہی ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے اتباع کے قاعدہ کے تحت ذکر فرمائی ہے۔ [2] صحیح بخاری (کتاب العلم:125) [3] صحیح بخاری (کتاب العلم:126)