کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 118
2۔جس شخص کی تقلید میں شرعی خطا واضح ہو اس کی تقلید پر ڈٹا نہ رہے۔ 3۔ایک عام آدمی پر یہ لازم ہے کہ وہ صرف اس سے فتوی دریافت کرے جو فتوی دینے کا اہل ہو، اور جب فتوی کے اہل ایک سے زائد ہوں تو اسے اختیار ہے کہ ان میں سے جس سے چاہے فتوی پوچھ سکتا ہے۔ 4۔کسی ایک معین مسلک پر چلنے کو واجب قرار دینا اور کسی ایک خاص عالم کے ہر قول و رائے پر عمل کو واجب قرار دینا بالکل باطل ہے، اور جو شخص ایسا کہتا یا کرتا ہے وہ اہل بدعت میں سے ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "مسلمانوں میں سے کسی پر بھی کسی ایک معین عالم کی ہر بات کی تقلید (یعنی تقلید شخصی) واجب نہیں "[1]۔ اور جو شخص اپنی نسبت کسی عالم کی طرف کرتا ہو تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس عالم کی بنیاد پر کسی سے دشمنی یا دوستی کرے، اور ایسا کرنے والا بدعتی شمار ہو گا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" جس نے کسی شخصیت کو سامنے رکھ کر چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کے قول اور فعل سے موافقت کو دوستی اور دشمنی کا معیار بنایا تو یہی وہ لوگ ہیں ( جو اللہ تعالی کے اس فرمان )[ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا] ترجمہ: جنہوں نے اپنا دین الگ کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے" کا مصداق ہیں[2]۔ایک اور جگہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "ایسی نسبت جو مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کردے، جماعتی وحدت پارہ پارہ ہوجائے، گروہ بندیاں ہو جائیں، بدعات کے راستے کھل ہو جائیں، سنت اور اتباع چھوٹ جائے تو ایسی نسبتوں کو اختیار کرنے کی ممانعت ہے، اور ایسا کرنے والا شخص گناہ گار اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے" [3]۔ اتباع کا ایک اہم قاعدہ: جو مجتہد نہ ہو تو شرعی معاملات میں اس کی غلطی حق سے انحراف ہے، اور اس غلطی کا سبب خواہش پرستی ، متشابہات کی پیروی اور جماعت سے دوری ہے، اس غلطی کامدخل یہ ہے کہ وہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا امام یا وہ خود اہل اجتہاد میں سے ہیں ، اور ان کا قول معتبر ہے، اور یہ غلطی یا تو کسی جزئی مسئلہ میں ہوتی ہے اور یہ نسبتاً ہلکا معاملہ ہے، یا پھر کلیات شریعت میں ہوتی ہے چاہے یہ کلیات عقیدہ سے متعلق ہوں یا عمل سے، اور اس معاملہ میں آپ عموماً دیکھیں گے کہ وہ محض بعض جزئیات کا علم لے کر اس کے ذریعہ شریعت کے مسلمات پر حملہ آور ہو گا اور اسے ڈھانے کی کوشش کرے گا، اور پھر حال یہ ہوگا کہ وہ اپنی سطحی فہم کے ذریعہ جو رائے قائم کرے گا اسے ہی اختیار کرے گا اور شریعت کے معانی و مقاصد سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوگا، وہ اپنے لئے نہ تو قرآن وحدیث کے دلائل کی ضرورت محسوس کر کے ان کی طرف رجوع کرے گا اور نہ ہی ان دلائل
[1] مجموع الفتاوی (20/209) [2] مجموع الفتاوی (20/292) [3] مجموع الفتاوی (11/514)