کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 117
اتباع اور تقلید میں فرق :
امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" چوتھی تنبیہ: یہ بات ذہن نشین رکھئے کہ اتباع اور تقلید میں فرق کرنا نہایت ضروری ہے، اور جہاں اتباع کا مقام ہو وہاں تقلید قطعا جائز نہیں، اس بات کی وضاحت یوں سمجھئے کہ ہر وہ حکم اور مسئلہ جس کی دلیل قرآن سے یا حدیث سے یا مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہو ،اس مسئلہ میں کسی کی تقلید کرنا جائز نہیں ، کیونکہ دلیل کے مقابلہ میں اجتہاد باطل ہے، اور تقلید صرف وہیں کی جا سکتی ہے جہاں اجتہاد کی گنجائش ہو، اور اس لئے بھی کہ فرامین قرآن و حدیث ، ائمہ مجتہدین کے لئے حاکم کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے رو گردانی کسی کے لئے بھی جائز نہیں، اور قرآن یا حدیث یا اجماع کی مخالفت میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں ، کیونکہ حق سے جدا ہو جانے پر کوئی قابل پیروی نہیں رہتا،لہذا جن مسائل میں واضح دلیل موجود ہو ان میں اتباع ہی لازم ہے، اور واضح دلائل کی موجودگی میں اجتہاد اور تقلید کا کوئی جواز نہیں ، اور تقلید اور اتباع میں یہ فرق اہل علم کے ہاں معروف ہے، اور اس حوالہ سے اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں ملتا"[1]۔اس کے بعد شیخ شنقیطی رحمہ اللہ نے وحی پر عمل پیرا ہونے کو اتباع کہنے اور تقلید نہ کہنے کے سبب کو بیان فرمایا کہ آیات قرآنی میں اس کو اتباع ہی کہا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: [اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاءَ](الاعراف 3)ترجمہ:" (لوگو) جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو۔ اس کے علاوہ دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو" ، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:[وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ](الزمر 55) ترجمہ: اور اس بہترین (کتاب) کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب اتاری گئی ہے" اور اللہ تعالی کا فرمان ہے"[قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ](الاعراف (203) "ترجمہ:" میں تو صرف اس چیز کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے" ۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ دینی مسائل میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اقوال پر عمل پیرا ہونا اتباع کے قبیل سے ہے تقلید نہیں ہے۔
تقلید کے ضوابط:
1۔ایک مقلد پر یہ لازم ہے کہ اگر وہ کسی کی تقلید کرے تو اس کے عالم ہونے کی حیثیت سے اس طرح تقلید کرے کہ اس عالم کے علم سے استفادہ کرے ( نہ کہ شخصیت پرستی میں مبتلا ہو) ، اور اگر اسے معلوم ہوجائے یا غالب گمان ہو کہ وہ عالم کسی مسئلہ میں غلطی کا شکار ہے تو (اس مسئلہ میں ) اس کی تقلید سے رک جائے ، کیونکہ ہر شخص سے بہرحال غلطی کا امکان رہتا ہے۔
[1] اضواء البیان (7/547-548)