کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 116
کن مسائل میں تقلید جائز ہے ؟ اور کس کے لئے جائز ہے؟ شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمه الله فرماتے ہیں:" تقلید صرف ان مسائل میں جائز ہے جو اجتہادی مسائل ہوں ، جن میں قرآن و حدیث سے کوئی واضح دلیل میسر نہ ہو" [1]۔ امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور اجتہاد صرف دو جگہوں پر جائز ہے: (۱) جن مسائل میں قرآن و حدیث کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ (۲) جن مسائل میں احکامات تو موجود ہو ں لیکن بظاہر ان میں تعارض ہو، تو ان احکامات کے درمیان جمع کی صورت بنانے، یا کسی ایک حکم کو دوسرے پر راجح قرار دینے کے لئے اجتہاد کرنا جائز ہے [2]۔ اور تعارض کی صورت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اصول یہ ہے کہ ترجیح دینے سے پہلے آثار صحابہ پر ضرور نظر دوڑائی جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اجتہادی مسائل میں اگر کوئی شخص بعض علما کی رائے کو اختیار کرتا ہے تو اس پر کوئی قد غن نہیں اور نہ ہی اس سے قطع تعلقی اختیار کی جائے گی، اسی طرح جو شخص (کسی اجتہادی مسئلہ میں ) دو اقوال میں سے کسی ایک پر عمل کرتا ہے تو اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ، اور اگر کسی (اجتہادی ) مسئلہ میں دو اقوال ہوں اور کسی شخص کو ان میں سے ایک قول (دلائل کی روشنی میں ) زیادہ راجح معلوم ہو تو وہ اس پر عمل کر لے، اور اگر راجح و مرجوح کا فرق نہ کر سکے تو معتمد علما میں سے کسی کی تقلید کرلے" [3]۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا شخص جو دین کے کسی مسئلہ میں حکم شرعی کی معرفت سے عاجز ہو تو اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسے عالم سے یہ مسئلہ دریافت کرے جس کے دین اور علم پر اس کو اعتبار ہو، اور اس کے فتوی کی تقلید کرے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کے حکم کی معرفت سے عاجز ہو اور اس مسئلہ میں وہ اہل علم میں سے کسی کی پیروی کرے ، اور اسے یہ بھی نہ معلوم ہو سکے کہ کسی اور عالم کا قول اس عالم کے قول سے راجح ہے تو اس شخص کا یہ عمل قابل تعریف و لائق تحسین ہے اور یہ شخص ثواب کا امیدوار ہے، نہ کہ مذمت اور گناہ کا" [4]۔
[1] فتح المجید ( 345) [2] مذکرۃ أصول الفقہ علی روضة الناظر (415) [3] جموع الفتاوی (20/207) [4] مجموع الفتاوی (20/225)