کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 115
دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو" [1]۔
شیخ رحمہ اللہ نے جو شرط ذکر کی ہےکہ:" وہ اچھی طرح اس کا فہم حاصل کر لے" اس کا ضرورخیال کرنا چاہئے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کتاب و سنت سے منہ موڑنے اور سلف صالحین کے منہج کے عدم اہتمام نے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو اندھی تقلید میں لا گرایا ہے، بلکہ انہیں شریعت کی مخالفت میں لا کھڑا کیا ہے، اور آگے چل کر یہی معاملہ مسلمانوں میں تفرقہ اور گروہ بندیوں کا سبب بنا ہے۔
تقلید ِمحرم :
ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید ِمحرم کی تین اقسام بیان کی ہیں :
(۱) آباؤ و اجداد کی اندھی تقلید میں کتاب اللہ سے منہ موڑنا اور اس کی طرف رجوع نہ کرنا۔
(۲) ایسے شخص کی تقلید کرنا جس کے بارے میں مقلد یہ جانتا نہ ہو کہ وہ اس بات کا اہل بھی ہے کہ شرعی معاملات میں اس کا قول لیا جائے یا نہیں؟
(۳) امام کے قول کے مخالف(قرآن و حدیث سے ) دلیل آ جائے تو بھی اس امام کی تقلید پر ڈٹے رہنا۔
تقلید سے ممانعت کس کے لئے ہے؟
ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید محرم کی جو اقسام بیان فرمائی ہیں اسی سے اس سوال کا جواب معلوم ہو جاتا ہے، لہذا ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح کی تقلید محرم میں ملوث ہے وہ اس مذمت اور ملامت کا مستحق ہے جو معروف ائمہ کرام سے تقلید محرم کے حوالہ سے منقول ہے۔
شیخ عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کرتے ہیں کہ : "مجھے ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو احادیث کی اسانید اور ان کی صحت کا علم رکھنے کے باوجود سفیان رحمہ اللہ (وغیرہ ) کی رائے کو اپناتے ہیں" اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام میں اس جانب اشارہ ہے کہ دلیل کا علم ہونے سے پہلے تقلید مذموم نہیں ہے، البتہ اگر دلیل کا علم ہوجائے اور پھر یہ مقلد محض کسی امام کے قول کی وجہ سے اسے ترک کردے تو یہ عمل نہایت ہی مذموم ہے"[2]۔
[1] فتح المجید ( 345)
[2] فتح المجید ( 345)