کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 113
کردیتا ہے، اور کچھ تو ان میں سے ایسے ظالم اور جاہل ہیں کہ اپنی گفتگو میں صغار علماء کا اسلوب بھی اختیار نہیں کرپاتے بلکہ ان کی گفتگو جاہل قصہ گو اور عام عوام کی طرز پر ہوتی ہے، وہ جید علما کی طرح مسئلہ کی درست منظر کشی اور جواب کی شائستہ تحریر کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اسی طرح نہ ہی اس کے پاس مجتہد علماء کی طرح استدلال اور اجتہاد کا ملکہ ہے ، بلکہ یہ نادان تو اماموں کے اقوال اور ان کے دلائل سے لاعلمی کی بنیاد پر کسی کی تقلید بھی درست انداز میں نہیں کر سکتا بلکہ اسا کے پاس تو فقہی مسائل میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا بھی ملکہ نہیں ہوتا جس کے متوسط طبقہ کے فقہاء مالک ہوتے ہیں ، اور احکام شرعیہ میں گفتگو کرتے ہوئے باطل اور تدلیس کو ہرگز بھی قبول نہیں کیا جائے گا جو کہ اہل بدعت کا وطیرہ ہے، جن کے علم کی سیرابی انوار نبوت سے نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ تو محض اپنی رائے اور خواہشات پر مبنی بات کرتے ہیں اور جھوٹ اور تحریف کا سہارا لیتے ہیں، پھر یہ نالائق لوگ دین اسلام میں ایسی چیزیں داخل کر دیتے ہیں جن کا اس دین سے کوئی واسطہ نہیں ، اگرچہ وہ اپنی گمراہی کے سبب یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب دین اسلام کا حصہ ہے، جبکہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے، اور بیشک یہ دین اللہ تعالی کی حفاظت میں محفوظ ہے۔۔۔"آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، ان کے مخالف اور ان کی عزتوں کے درپے لوگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی"[1]۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " ہر آنے والے لوگوں میں سے بہترین لوگ اس علم کا بیڑا اٹھائیں گے، جو غلو کرنے والوں کی (دین میں ) تحریفات ، اہل باطل کی تلبیسات اور جاہلوں کی تاویلات کا قلع قمع کریں گے" [2]، اور بد قسمتی یہ ہے کہ بہت سے فقہا اور عوام میں سے اکثر ایسے لوگ جو زہد وورع اور دینداری کے اوصاف رکھتے ہیں وہ بھی ان بد عادات میں مبتلا ہیں، اور اصل بات تو یہ ہے کہ جس کسی کا علم اور عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول علم پر مبنی نہ ہو وہ کبھی بھی خواہشات اور بدعات سے پاک نہیں ہوسکتا ، امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ ان دونوں اصحاب نے فرمایا: " سنت پر اکتفاء کرنا کثرت سے بدعات کرنے سے بہتر ہے"، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں " اپنے اعمال کا جائزہ لے لو چاہے وہ درمیانے ہوں یا زیادہ ہوں ، ان اعمال کو منہج انبیاء اور سنت پر ہونا چاہئے "، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:" جس شخص نے اس دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں پہلے سے داخل نہیں تھا تو اس کا یہ عمل مردود ہے" [3]، آگے چل کر شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں:" بکر بن عیاش رحمہ اللہ سے جب یہ کہا گیا کہ : مسجد میں
[1] صحیح بخاری (کتاب المناقب : 3442) [2] مسند زید (599) [3] صحیح بخاری : کتاب الصلح (2550)