کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 103
ہوجائے، لیکن اگر معاملہ دین کا ہو تو یہ کنارہ کشی اور ترک تعلق دائمی ہے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں" [1]۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " اگر میں کسی یہودی یا عیسائی کے پاس بیٹھ کر کھانا کھالوں تو یہ میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے اس بات سے کہ میں کسی بدعتی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤوں، کیونکہ یہودی یا عیسائی کے ساتھ میرے کھانا کھانے کی تو کوئی پیروی نہیں کرے گا (کیونکہ ان کا معاملہ سب کے سامنے واضح ہے) البتہ بدعتی کے ساتھ میرے کھانا تناول کرنے کی بہت سے لوگ پیروی کریں گے، بلکہ میری تو خواہش ہے کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا ایک مضبوط قلعہ ہو، اور (جان لیجئے کہ) تھوڑا عمل کرنا جو سنت کے مطابق ہو کسی بدعتی کے عمل کثیر سے بہت بہتر ہے، اور بدعتی کا ہمنوا حکمت سے محروم رہتا ہے، بلکہ بدعتی کے ہم مجلس سے بھی محتاط رہو، اور اپنے دین کے معاملہ میں بدعتی سے ہمیشہ بچ کر رہنا، اور اپنے معاملات پر کبھی اس سے مشورہ تک نہ کرنا[2]۔
ابن مفلح رحمہ اللہ اپنی کتاب "الآداب الشرعیۃ " میں ذکر فرماتے ہیں کہ خلیفہ متوکل نے امام احمد رحمہ اللہ کی جانب ایک قاصد بھیجا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ : آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم حکومتی معاملات میں عیسائیوں کو استعمال کریں یا اہل بدعت کو؟، تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: "اسے چاہئے کہ وہ عیسائیوں کو استعمال کرے، اہل بدعت کو نہیں"، جب وہ قاصد چلا گیا تو مجلس میں موجود ایک شخص نے امام احمد رحمہ اللہ سے اس کی وجہ پوچھی تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: "یہودی اور عیسائیوں کی برائیاں سب پر واضح ہیں، جبکہ یہ اہل بدعت دیگر لوگوں کو ان کے دین کے معاملہ میں شک وشبہ میں ڈال دیتے ہیں[3]،[4]۔
امام یحی بن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جب تم کسی بدعتی کو ایک راستے پر چلتا دیکھو تو تم کوئی دوسرا راستہ اختیار کرو" [5]۔
اسی طرح اہل بدعت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام احمد فرماتے ہیں: " یہ لوگ کتاب الہی میں اختلاف کرتے ہیں، بلکہ درحقیقت یہ خود کتاب الہی کے مخالف ہیں اور ااس سے علیحدگی اختیار کرنے میں یہ سب متفق ہیں، متشابہ الفاظ کے
[1] شرح السنہ (1/223-227)
[2] الحلیہ لابی نعیم (8/301)
[3] یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے : (۱) امام احمد کی ہرگز یہ مراد نہیں کہ عیسائی ، اہل بدعت سے زیادہ افضل ہیں، یا مسلمان بدعتی اور عیسائی ایک ہی درجہ پر ہیں ، بلکہ مراد یہ ہے کہ بدعتی چونکہ مسلمان ہے لہذا کسی منصب پر فائز ہو کر وہ اپنی بدعت کی بھرپور ترویج کرسکتا ہے، جبکہ عیسائی چونکہ غیر مسلم ہے تو وہ ایک طاقتور اسلامی مملکت میں جہاں مسلمان قوت میں ہوں وہاں اپنی دعوت کے لئے مسلمانوں کی طرف سے تفویض کردہ مناصب و عہدہ جات کو استعمال نہیں کرے گا۔ (۲) یہ اصول صرف اس وقت اپنایا جائے گا جب مسلمان قوت میں ہوں ، اور غیر مسلم عیسائی و یہودی ذمی بن کر جزیہ ادا کر کے اسلامی مملکت میں رہتے ہوں ، اور انہیں ایسی ذمہ داری دی جائے جسے ادا کرنے کے لئے کوئی اہل سنت مسلمان دستیاب نہ ہو۔ البتہ اگر عیسائی و یہودی طاقتور ہوں اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتے ہوں تو پھر انہیں اسلامی مملکت میں کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔
[4] الآداب الشرعیہ (165)
[5] الشریعہ للآجری (1/199)