کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 102
امام شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: " اس آیت میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جو ایسے اہل بدعت کے ساتھ مجالس کرنے میں گنجائش کی راہ نکالتا ہے جو کلام الہی میں تحریف کرتے ہیں ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لہوو لعب کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ، اور اسے توڑ مروڑ کر اپنی گمراہ کن خواہشات اور بدعات کے مطابق بنانے کی سعی لاحاصل کے مجرم ہیں، ان اہل بدعت کے اس فعل شنیع کا انکار نہ بھی کیا جائے اور ان کے جرائم کی اس شخص کو پردہ پوشی ہی منظور ہو تو بھی ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس پر کم از کم واجب یہ ہے کہ وہ ان کی مجلسوں میں شریک نہ ہو، اور یہ کام بہرحال اس شخص کے لئے قدرے آسان ہے، کیونکہ اہل بدعت اس شخص کے اپنی مجالس میں آنے کو اور اس کی خاموشی کو عوام کو دھوکہ میں ڈالنے کے لئے بطور شبہ اور دلیل کے استعمال کرتے ہیں، یعنی اس شخص کے اہل بدعت کی مجالس میں شریک ہوکر باطل تاویلات کے سماع کا ہی ایک مفسدہ نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مفاسد ہیں، اور ہم نے ان ملعون مجالس کے ایسے ایسے نقصانات دیکھے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں، اور ہم اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ نصرت حق اور باطل کی مخالفت میں کوشاں ہیں، اور جو شریعت مطہرہ کی حقیقی معرفت رکھتا ہو وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوگا کہ اہل بدعت کی ان مجالس میں جو مفاسد پنہاں ہیں وہ اہل معصیت کی گناہ سے لتھڑی مجالس سے کہیں زیادہ ہیں، خاس طور پر اس شخص کے لئے جو کتاب و سنت کے علم میں پختگی نہ رکھتا ہو، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اہل بدعت کے ایسے شبہات اور ہذیان سنے جو واضح طور پر خلاف حق ہوں، اور اسی سبب سے اس کے دل میں ایسا مرض در آئے کہ جس کا علاج ہی ممکن نہ ہوسکے ، پھر وہ ساری عمر اس مسئلہ پر عمل پیرا رہے اور جب اللہ تعالی سے ملاقات ہو تو اس کا گمان ہو کہ وہ حق پر ہے لیکن پھر اسے معلوم ہو کہ در حقیقت وہ تو باطل کی چوٹی پر کھڑا تھا" [1]۔
علامہ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں دھڑے بازی ، خواہش پرستی اور بدعات کے درآنے کے متعلق آگاہ فرماچکے ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کے طریقہ پر عمل پیرا شخص کے لئے نجات کا سندیسہ بھی دے چکے، لہذا اگر ایک مسلمان کسی شخص کو خواہش پرستی یا بدعات میں ملوث پائے یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی عمل کا استہزا کرتا دیکھے تو فورا اس سے کنارہ کشی اختیار کرے ، اس سے براءت کا اعلان کرے اور اس کے زندہ یا مردہ کسی بھی حال میں اس سے کوئی تعلق اختیار نہ کرے، اگر اس سے ملاقات ہو تواسے سلام نہ کرےاور اگر وہ سلام کرے تو اس کا جواب نہ دے جب تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ کر راہ حق کو اختیار نہ کرلے، اور جہاں تک حدیث شریف میں تین دن سے زیادہ لاتعلقی سے ممانعت کی بات ہے تویہ ممانعت اس وقت ہے جب ناراضی کا سبب دنیاوی ہو یعنی دوستی اور رشتہ داری میں کسی کی حق تلفی
[1] فتح القدیر (2/381)