کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 10
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےجس طرح احادیث کی تینوں قسموں(قولی،فعلی اور تقریری) کو حرز جاں بنائے رکھا،اسی طرح سنت ترکیہ پر بھی نہایت سختی سے عمل پیرا رہے۔اسی لیے ان کی طرف سےخیر اور بھلائی کےنام سےکسی قسم کی بدعت کا ارتکاب نہیں ہوا۔بلکہ ان کے دور میں ان کو ایسا کوئی کام ہوتا نظر آیا تو فوراََ اس پر نکیر کی اور اس کو برداشت نہیں کیا،اس کی ایک نمایاں مثال وہ واقعہ ہے جو سنن دارمی میں موجودہے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد میں ایک مجلسِ ذکردیکھی جس میں اجتماعی ذکر ہورہاتھا ،یہ چونکہ ایک نئی چیز اور ذکر کا نیا طریقہ تھاجس میں ان کو تعجب ہوا،وہ فوراََ ایک اورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے جا کر کہا: میں نےمسجد میں کچھ لوگوں کو گول دائروں میں(حلقوں)میں بیٹھے ہوئےدیکھا ہےجو نماز کا انتظارکر رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہیں اور دائرے میں ایک آدمی ہےجو کہتا ہے:سو مرتبہ اللہ اکبرکہو۔لوگ اس کی اقتدا میں سو مرتبہ اللہ اکبر کہتےہیں۔پھر وہ کہتا ہے:سو مرتبہ لاالہٰ الااللہ کہو،پھر وہ لاالہٰ الااللہ کہتے ہیں۔اس کےبعد وہ کہتا ہے:سومرتبہ سحان اللہ کہو،وہ سبحان اللہ کہتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا’’تم نے یہ دیکھ کر کیا کہا؟‘‘ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں نے تو ان کو کچھ نہیں کہا،آپ کی رائے اور حکم کا منتظر ہوں‘‘حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’تم نے ان کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ اس کےبجائے وہ اپنےگناہوں کا شمارکریں اور نیکیاں ضائع نہ ہونے کی تم ان کوضمانت دیتے ‘‘،اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود(مسجد میں)تشریف لائےاور ان حلقوں(گول دائروں)میں سے ایک حلقےکے قریب کھڑے ہو کرفرمایا: ’’تم یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘انہوں نے جواب میں کہا: ’’ابوعبدالرحمٰن!(عبداللہ بن مسعود کی کنیت)ہم ان کنکریوں کےذریعے سے تکبیر،تہلیل اور تسبیح گن رہے ہیں۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"اس کے بجائے اپنے گناہ گنو،میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔اس کےبعد فرماتے ہیں:اے امت محمد علیٰ صاحبھا الصلاۃ والتسلیم!تم کس قدر جلدی ہلاکت کی طرف چل پڑے ہو،ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےکپڑےبھی پرانے نہیں ہوئے اورنہ ابھی آپ کے برتن ٹوٹے ہیں(یعنی آپ کے انتقال کو زیادہ مدت نہیں ہوئی)مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے،یا تو تم نے کوئی ایسا دین دریافت کر لیا ہےجس میں دین محمدسے زیادہ ہدایت ہے یا تم گمراہی کےدروازےکھول رہےہو؟انہوں نے کہا اے ابوعبدالرحمٰن!اللہ کی قسم ہماری نیت تو صرف نیکی حاصل کرنے کی ہے۔جواب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کتنے ہی نیکی کی نیت سے عمل کرنے والےاس سے محروم رہتے ہیں۔(اس کےبعد انہوں نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: