کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 99
﴿ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﴾[ھود: ۴۶] [بے شک وہ تیرے گھر والوں سے نہیں، بے شک یہ ایسا کام ہے جو اچھا نہیں] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا: (( اِعْمَلِيْ فَإِنِّيْ لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا )) [1] [(اے فاطمہ!) عمل کرو، کیونکہ میں اللہ کے پاس تجھ سے کچھ کفایت نہیں کر سکتا] مدتِ خلافت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ عنہم برحق امام ہیں، اس کے بعد خلافت کا دور ختم ہو گیا اور مسلمانوں کو پارہ پارہ کرنے والی بادشاہت کا دور شروع ہو گیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دو برس تین مہینے خلیفہ رہے، عمر رضی اللہ عنہ ساڑھے دس برس، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ برس، علی رضی اللہ عنہ چار برس نو مہینے اور حسن رضی اللہ عنہ چھے مہینے خلیفہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ۳۰ھ کے شروع میں ہوئی، لہٰذا معاویہ رضی اللہ عنہ اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے ہیں، وہ سب ملوک اور امرا تھے، خلفا نہیں تھے۔ فضیلتِ شیخین: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل انسان ہیں۔ یہاں ہر لحاظ سے افضلیت مراد نہیں ہے کہ یہ نسب و شجاعت اور قوت و علم وغیرہ کو بھی شامل ہو، بلکہ اسلام میں نفع عظیم کے معنی میں افضلیت ہے۔ یہ بات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں دوسروں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے، لہٰذا علی رضی اللہ عنہ کو شیخین(ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر مطلقاً مقدم کرنا جمہور کے مختار مذہب کے خلاف ہے۔ ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما اشاعتِ حق میں ہمتِ بالغہ رکھنے کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو امیر اور وزیر تھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو جہتیں رکھتے تھے۔ ایک جہت اللہ تعالیٰ سے حاصل کرنے کی تھی اور
[1] مسند البزار (۷/۳۲۰) امام بزار رحمہ اللہ یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے: ’’وھذان الحدیثان لا نعلمھما یرویان عن حذیفۃ إلا بھذا الإسناد، ولا نعلم لحذیفۃ ابنا یقال لہ: سماک إلا في ھذا الحدیث‘‘ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رواہ البزار من روایۃ قطري۔۔۔ و قطري لم أعرفہ‘‘ (مجمع الزوائد: ۱/۲۰۷) البتہ صحیحین میں یہ روایت بایں الفاظ ’’یا فاطمۃ بنت رسول اللّٰه سلیني بما شئت لا أغني عنک من اللّٰه شیئاً‘‘ مروی ہے۔ دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۹۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۶)