کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 87
فلاں امر عذاب کا سبب ہے، بلکہ ہر چیز کی خوبی اور عیب اللہ کے قضا و قدر اور اس کے حکم و امر سے ہے، اسی نے لوگو ں کو اس کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ اگرچہ بعض اشیا کے ثواب و عقاب کی مصلحت اور مناسبت عقل سے معلوم ہو جائے، وگرنہ بعض علل کا ادراک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہوتا ہے۔ صفاتِ باری تعالیٰ: اللہ کی ہر صفتِ ذات جیسے علم، قدرت، حیات، کلام، سمع، بصر، ارادہ اور مشیت ہو یا ہر صفتِ فعل جیسے تخلیق، ترزیق، ابداع، احیا، اماتت، انبات، انما، تصویرِ اشیا اور اس جیسی دیگر صفات ہوں، ان میں سے ہر صفت واحدبالذات ہے نہ متکرر ہے نہ متعدد۔ وہ ایک ہی فعل سے سارے مفعولات کو ادا کرتا ہے، جس طرح وہ ایک ہی سمع سے سارے مسموعات کو سنتا ہے۔ اور ایک کلام سے سارے کلمات کے ساتھ تکلم فرماتا ہے، اور ایک ہی حیات کے ساتھ حیی و قیوم ہے، یہی حال اس کی باقی صفات کا ہے۔ جو تکثر و تعدد سمجھ میں آتا ہے، اس کا اثر نہ اسماے صفات میں ہے اور نہ نفسِ صفات ہی میں۔ فرشتے: اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جن کا مسکن بلند وبالا آسمان ہیں۔ ان فرشتوں کو ملأ اعلیٰ کہتے ہیں۔ وہ اللہ کے بے حد مقرب ہیں۔ وہ دو دو، تین تین اور چار چار پر رکھتے ہیں۔ وہ لطیف ہوائی جسم رکھتے ہیں اور مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ان کا نر یا مادہ ہونا کسی نقلی یا عقلی دلیل کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ بت پرستوں نے انھیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا، مگر یہ محال باطل ہے اور ان کی شان میں افراط ہے۔ سچ تو یہ ہے: ﴿ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ﴾[الأنبیاء: ۲۶] [بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے] وہ ہر گناہ سے معصوم ہیں۔ وہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ وہ وحی پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ وہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، پھر باوجود اس قرب اور قدر و منزلت کے تمام مخلوقات کی طرح علم رکھتے ہیں نہ قدرت۔ علم ہے تو وہ ہی جو اللہ نے بتا دیا ہے اور قدرت ہے تو صرف اتنی جتنی اللہ نے عطا کر دی ہے۔ وہ ہماری طرح اللہ کی ذات و صفات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ کی صفات واجبیہ میں یا عبادت میں کسی بندہ خاص کو، خواہ وہ فرشتہ ہو یا رسول، شریک