کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 82
﴿ وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾[البقرۃ: ۱۱۷] [اور جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے بس یہی کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے] یہ کہنا کہ طبیب اور ڈاکٹر نے شفا دی یا امیر اور بادشاہ نے رزق دیا لفظ کا اشتباہ ہے۔ یہ تسببِ عادی یہاں مراد نہیں ہے، کیوں کہ ان کاموں میں اللہ تعالیٰ کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں ہے۔ وحدت الوجود کی مذمت: وہ اپنے غیر میں حلول نہیں کرتا۔ وہ اس عالم کائنات سے جدا عرش کے اوپر ہے۔ کوئی غیر اس میں حلول کرتا ہے اور نہ وہ ہی کسی غیر کے ساتھ متحد ہوتا ہے، بلکہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ اس اعتقاد سے وحدتِ وجود کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ حدوث: اس کی ذات کے ساتھ کوئی حادث قائم ہے نہ ا س کی ذات میں کوئی اور حدوث ہے، بلکہ یہ حدوث تعلقِ صفات میں متعلقات کے ساتھ ہے، جبکہ ارادہ اس کے وقوع کے ساتھ متعلق ہوتا ہے، یہاں تک کہ وقتاً فوقتاً اس کے افعال ظاہر ہوتے ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ تعلق بھی حادث نہیں ہے۔ تعلق کے ظہور میں احکام کا تفاوت و فرق متعلقات کے تفاوت و فرق کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر طرح کے حدوث و تجدد اور تغیر و تبدل سے بری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تعارف: قرآن مجید میں ذاتِ باری تعالیٰ کے تعارف کے لیے استعمال ہونے والے کلماتِ طیبات ہیں: ﴿ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ * اَللّٰہُ الصَّمَدُ * لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ *وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ﴾[سورۃ الإخلاص] [کہہ دے! وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے] یہ کلمات اہلِ کلام کی اس خود ساختہ عبارت سے بہتر ہیں کہ اللہ تعالیٰ جوہر ہے نہ عرض، جسم ہے نہ متحیز، وہ کسی جہت میں ہے نہ قرب و بعد کے ساتھ مشار الیہ، اس کے لیے نقل و حرکت صحیح ہے نہ