کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 67
اللہ کو اس کی قسم دی ہو جس طرح کہ بعض لوگ کہتے ہیں:
’’أسألک بحق فلان و فلان‘‘
[میں تجھ سے فلاں فلاں کے وسیلے اور حق کے ساتھ سوال کرتا ہوں]
بلکہ ایسا کرنا بدعات میں شمار ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( خَیْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِيْ بُعِثْتُ فِیْہِمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ )) [1]
[میری امت میں سے بہتر وہ ہے جس میں میں (نبی اور رسول) مبعوث ہوا ہوں، پھر ان لوگوں کا دور جو اس دور کے بعد آئے اور پھر ان کا دور سب سے بہتر ہے جو اُن کے بعد آئے]
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ملت کے طبقات میں سب سے بہتر طبقے کے لوگ تھے۔ انتہٰی [2]
توحید کا سرچشمہ:
میں کہتا ہوں کہ جو شخص اخلاصِ توحید کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے مبانی اور معانی پر زیادہ تدبر، تفکر اور تامل کرنے کی فرصت نہیں پاتا، وہ سورت فاتحہ کے مطالعے کے بعد سورۃ الکافرون اور اخلاص یعنی سورت ’’قل یأیھا الکافرون‘‘ اور سورت ’’قل ھو اللّٰہ احد‘‘ کا بغور مطالعہ کرے تو توحید خالص کو جاننے کے لیے اس کو یہی کچھ کافی ہو گا۔
ہر موافق اور مخالف کے ہاں یہ بات مسلم اور متفق علیہ ہے کہ وہ زمانہ جس کے بہتر ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، قطعی طور پر عقیدہ و عمل میں بہتر تھا، لہٰذا جو بات اس زمانے کے لوگوں سے ثابت نہیں ہے اور وہ ان میں معروف و مروج نہیں تھی یا جس چیز کو انھوں نے برا خیال کیا یا جو ان کی سیرت و سنت کے خلاف ہے، وہ بلا شک و شبہہ کسی قسم کے شرک یا بدعت یا معصیت یا حرمت یا کراہت سے خالی نہیں ہو سکتی۔
’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کے باب نمبر (۱۹۸) میں کہا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کے حق میں نازل ہونے والی آیت کی تفسیر اس طرح کرتے تھے کہ وہ شرک اصغر کو بھی اپنے اندر شامل کر لے۔
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۶۵۷)
[2] الفتاویٰ الکبری لابن تیمیۃ (۳/۳۹)