کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 66
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام کر کے چل دیتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جو بڑے متبعِ سنت صحابی تھے، جب وہ [سفر سے] مسجد نبوی میں آتے تو کہتے: ’’السلام علیک یا رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم ، السلام علیک یا أبابکر، السلام علیک یا أبت‘‘[1] [اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلامتی ہو۔ اے ابو بکرt! آپ پر سلام ہو۔ اے میرے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو] یہ کہنے کے بعد وہ چل دیتے تھے، زیادہ دیر تک قبروں کے پاس نہیں رکتے تھے۔ مخلوق کے وسیلے سے دعا کرنا جائز نہیں ہے: امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے مذکورہ مسئلے کی صراحت کی ہے۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ وغیرہ علما کا قول یہ ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی مخلوق کے وسیلے کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرے، وہ مخلوق انبیا ہوں یا ملائکہ یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دفعہ مسلمان قحط سالی کا شکار ہو کر سخت مشقت میں مبتلا ہوئے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں مانگنے لگے اور بارش طلب کرنا شروع کی اور انھوں نے دشمنوں کو بد دعا دی۔ نیک لوگوں کی دعا کا وسیلہ جائز ہے: مذکورہ بالا قحط سالی کے دوران میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صالحین کی دعا سے استفادہ کیا اور اسے وسیلہ بنایا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَ قُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ وَ بِدُعَا ئِھِمْ وَصَلَا تِھِمْ وَ إخْلَاصِھِمْ )) [2] [اور تم اپنے میں سے کمزور لوگوں، ان کی دعا، ان کی نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے مدد کیے جاتے اور رزق دیے جاتے ہوں] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی یہ کام نہیں کیا کہ وہ دعا کرنے کے لیے کسی نبی یا کسی صالح آدمی کی قبر پر گئے ہوں یا کسی قبر کے پاس نماز پڑھی ہو یا کسی مردے سے کوئی حاجت و ضرورت طلب کی ہو یا
[1] سنن البیھقي (۵/۲۴۵) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۷۳۹) سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۱۷۸)