کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 608
تک پہنچو یا نہ پہنچو] اس زمانے کی اکثر تالیفات جدال ومرا سے معمورہیں اور مخلوق کے اکثر اعمال شرک وریا ہیں۔ حرف شناسوں کی ساری مصروفیت اور شغل اسی میں منحصر ہے کہ وہ مسائل فرعیہ پر باہم بحث کیا کریں۔ پھر اختلافی جگہوں میں ایک دوسرے کی تضلیل وتکفیر رسالوں میں لکھا کریں۔ کسی شخص کو یہ فکر نہیں ہے کہ وہ اپنی عبادات کے ارکان وآداب، مکملات اور متممات کو اچھی طرح سلف صلحا کے ماثورات کے مطابق سیکھ کر عمل میں لائے جس سے اس کی نماز، روزہ، زکات، اور حج صحیح ٹھہرے اور پھر اس کے اندر تحصیلِ اخلاص کے لیے مقدور بھر ساعی ہو اور اوقات فرصت میں دقائق وحقائقِ ریا و شرک کو، جو محبط عمل اور موجب ردت وقتل ہیں، دریافت کر کے ان طرائق سے اپنے آپ کو دور کرے۔ ابوابِ بدعات سے اپنی جان بچائے۔ اس لیے کہ طریقِ حق اور سبیلِ صدق ایک ہے اور ضلالت کے طرق بہت ہیں، جس طرح کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾[الأنعام: ۱۵۳] [اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے] اس باب میں ایک حدیث بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی، پھر اس کے دائیں بائیں مزید لکیریں کھینچ کر فرمایا کہ یہ سب شیطان کی راہیں ہیں، ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے وہ اسے طریقِ ضلالت کی طرف بلاتا ہے اور یہ ایک سیدھی راہ ہے، پس تم اس سیدھی راہ پر چلو، ہر طرف مت بہک جاؤ۔[1] اس حدیث کے الفاظ مشکات وغیرہ میں لکھے ہیں۔ یہ اسی حدیث کا حاصل مضمون ہے۔ کہ ہمارا یہ زمانہ اختلافِ مذاہب اور اعتسافِ مشارب کا زمانہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہمیں اس کی خبر دے دی ہے اور ایسے زمانے میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم سنتِ نبوی اور خلفاے راشدین مہدیین کے طریقے پر جمے رہیں۔ زمانۂ خیر کے بعد اسلام میں بہتر فرقے بن گئے تھے اور دین میں ایک عجیب ہنگامہ برپا ہوا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی حجتِ بالغہ
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۱)