کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 606
الأشیاء لا تعرف کمالا وضدا إلا بأضدادھا‘‘ انتھی۔ [بحمد اللہ جب ہم اس بڑے عظیم مسئلے پر اور ان کے ان متعلقہ مسائل پر کلام کر چکے، جن کی مخلوقِ خدا کو ضرورت تھی، اور ہم نے اس پر بسط وتفصیل کے ساتھ کلام کیا اگرچہ وہ ’’احیاء العلوم‘‘ کی نسبت بہت مختصر ہے، تو ہم نے ارادہ کیا کہ اس کلام کا خاتمہ ان آیات اور احادیث کے ذکر پر کریں جو اخلاص کی مدح، مخلصین کے ثواب اور جو کچھ اللہ نے ان مخلصین کے لیے تیار کیا ہوا ہے اس پر دلالت کرتی ہیں تا کہ یہ مخلوق کے لیے اخلاص کی تلاش کا باعث بنیں اور انھیں ریا کاری سے دور کر دیں، کیونکہ اشیا مکمل طور پر اپنے اضداد سے ہی پہچانی جاتی ہیں] لیکن یہاں پر مذکورہ کلام نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رسالہ ’’لسان العرفان‘‘[1] میں ریا کی بحث اس مقام سے زیادہ لکھی گئی ہے اور ’’قواطع البشر‘‘[2] اور ’’قوارع الإنسان عن اتباع خطوات الشیطان‘‘ میں ظاہرہ اور باطنہ کبائر کا بیان ہو چکا ہے۔ اس جگہ فقط اتنا مقصود تھا کہ فرقہ ناجیہ کے عقائدِ صحیحہ کا ائمہ دین، فقہاے مسلمین، صوفیہ متبعین، زمرہ محدثین اور محققین راسخین فی العلم کے کلمات کے مطابق بیان کیا جائے، کیونکہ نجات کا دارو مدار عقائد پر ہے۔ عقیدے کی درستی اور اخلاص کے ساتھ عمل قلیل کافی ہو جاتا ہے، جس طرح کہ حدیث میں آیا ہے: (( أَخْلِصْ دِیْنَکَ یَکْفِکَ الْقَلِیْلُ مَنَ الْعَمَلِ )) (رواہ ابن أبي الدنیا والحاکم) [3] [اپنے دین کو خالص کرو، تمھیں تھوڑا عمل بھی کفایت کرے گا] جبکہ فسادِ عقیدہ اور اختلاطِ ریا کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( لَا یُقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَاکَانَ خَالِصاً وابْتُغِيَ بِہٖ وَجْھُہٗ )) (رواہ الطبراني) [4]
[1] اس سے مولف رحمہ اللہ کی کتاب ’’لسان العرفان الناطق بما یھلک الإنسان‘‘ مراد ہے۔ [2] اس سے مولف رحمہ اللہ کی کتاب ’’قواطع البشر عن أنواع الشر‘‘ مقصود ہے۔ [3] الإخلاص والنیۃ لابن أبي الدنیا (۱/۷۶) مستدرک الحاکم (۴/۳۰۶) اس کی سند میں ’’عبید اللہ بن زحر‘‘ ضعیف ہے، نیز معاذ بن جبل سے بیان کرنے والے راوی ’’عمرو بن مرہ‘‘ کی ان سے ملاقات ثابت نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں کی وفات میں سو سال کا فاصلہ ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألباني (۲۱۶۰) [4] المعجم الکبیر للطبراني (۸/۱۴۰)