کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 605
حالانکہ لوگوں کی تعریف کرنے سے اسے نہ کوئی نفع ملتا ہے اور نہ کوئی ضرر دور ہوتا ہے۔ یہ بات تو خاص اللہ وحدہ لا شریک لہ کے لیے ہے کہ وہی اس کا مستحق ہے کہ سب لوگ تنہا اسی کا قصد کریں، کیونکہ منع و اعطا کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے والا وہی ہے۔ رازق، عطا کرنے والا، ضرر پہچانے والا اور نفع بخشنے والا اللہ عزوجل ہی ہے، جسے مخلوق سے طمع ہوتی ہے وہ ذل و خیبت، یا منت ومہانت سے ہر گز خالی نہیں رہتا۔ تو اب اس رجا کاذب اور وہمِ فاسد پر اس چیز کو چھوڑنا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کیوں کر ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ رجا ووہم کبھی مصیب اور کبھی مخطی ہوتا ہے۔ اگر ان لوگوں کو اس ریا پر اطلاع ہو جو ان کے دل میں ہے تو یہ خود مکروہ و مذموم سمجھتے ہوئے اسے ترک کر دیتے۔ جو شخص اس امر کو بعین بصیرت دیکھے گا اس کی مخلوق میں رغبت سست پڑ جائے گی اور وہ صدق کی طرف متوجہ ہو گا۔ یہ تو ہوئی علمی دوا، رہی عملی دوا تو وہ یہ ہے کہ اخفا عبادات کی عادت ڈالے جس طرح کہ خواہش کا اخفا کیا کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل اللہ کے علم واطلاع پر قانع ہو جائے اور نفس طلب علم غیر اللہ کی طرف اس سے منازعت نہ کرے۔ اس اخفا میں تکلف اختیار کرے اگرچہ ابتدا میں یہ بات شاق ہوگی، لیکن جو کوئی اس پر ایک مدت تک تکلف کے ساتھ صبر کرے گا اس سے اس ثقل کا تکلف ساقط ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی مدد کرے گا جس سے اس کی ترقی ہو گی۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسہم۔ بندے کی طرف سے مجاہدہ کرنا اور رب کریم کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے اور اللہ کی طرف سے ہدایت وفتح۔ ’’إن اللّٰه لا یضیع أجر المحسنین، وإن تک حسنۃ یضاعفھا ویوت من لدنہ أجرا عظیما‘‘ انتھیٰ۔ کلام الشیخ ابن حجر المکی رحمہ اللّٰہ فی کتابہ الزواجر ملخصاً۔ وقال رحمہ اللّٰه: ’’لما تکلمنا بحمد اللّٰہ علی ھذہ الکبیرۃ العظیمۃ وما یتعلق بھا مما یحتاج الخلق إلیہ وبسطنا الکلام في ذلک، وإن کان بالنسبۃ إلی إحیاء العلوم مختصرا جدا أردنا أن نختم الکلام فیھا بذکر شئ من الآیات والأحادیث الدالۃ علی مدح الإخلاص و ثواب المخلصین وما أعد اللّٰہ لہم لیکون ذلک باعثا للخلق علی تحري الإخلاص ومباعدۃ الریا إذ