کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 604
کفایتِ مستحقین اور تقرب بالبر طرف رب العالمین کے ہے۔ جو شخص ان آفات سے محفوظ نہ ہو تو اس کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ عبادات، استفراغ، سعیِ آداب اور مکملاتِ عبادت میں ملازمت کرے۔ اخلاص کی ایک علامت: عالم کے علم میں اخلاص کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر وعظ میں یا کثرت علم میں کوئی شخص اس سے بہتر اور نیک تر ظاہر ہو اور وہ لوگوں میں بہت مقبول ہو تو یہ اپنے جی میں خوش ہو اور اس پر حسد نہ کرے۔ ہاں اگر اسے رشک آئے تو کچھ ڈر نہیں ہے یعنی وہ اپنے نفس کے لیے یہ تمنا کرے کہ مجھے بھی اس طرح کا علم ہوتا۔ نیز اگر اکابر اس کی مجلس میں آئیں تو اس کے کلام میں تغیر نہ آئے، بلکہ ساری مخلوق کو ایک ہی نظر سے دیکھے اور لوگوں کا راستوں میں اپنے پیچھے چلنا پسند نہ کرے۔ ریا کاری کے نقصانات: آیات، احادیث اور ائمہ کے کلام سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ ریا کاری محبط اعمال ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی ناراضی کا سبب ہے، لعن و طرد کی موجب ہے اور منجملہ کبائر مہلکات کے ہے۔ اس طرح کا امر اس لائق ہے کہ ہر صاحبِ توفیق اس کے ازالے میں ساق جد سے مجاہدہ کے ساتھ کمرِ ہمت باندھ لے، اور مشاق شدیدہ کا تحمل کرے اور قوتِ شہوات میں مشکلات انگیز کرے، کیوں کہ کوئی شخص اس کا محتاج ہونے سے منفک نہیں ہو سکتا ہے، مگر وہی جسے اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا ہو جو مفادات کی میل کچیل اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے کی آمیزش سے پاک صاف ہو، اور وہ رب العالمین کی یاد میں ہمیشہ مستغرق رہتا ہو۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ ورنہ غالب اکثریت اسی حال پر مطبوع ہے۔ ریاکاری میں اگر اسی عبادت کو ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو اس کے شوم اور ضرر کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ لیکن آخرت میں ہر انسان ایسی ایک عبادت کا محتاج ہو گا جس سے اس کی نیکیوں والا پلڑا راجح اور بھاری ہو جائے، ورنہ اسے جہنم کی آگ کی طرف لے جائیں گے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ مخلوق کی رضا کا طالب ہوتا ہے اللہ عزوجل ایسے شخص سے بیزار ہو جاتا ہے اور مخلوق کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے، حالانکہ رضاے خلق ایک ایسی غایت ہے جو میسر نہیں آ سکتی۔ جب یہ شخص ایک قوم کو راضی کرے گا تو دوسری قوم کو ناراض کر لے گا۔ پھر ان کی مدح میں اس کی کیا غرض اور ضرورت ہے کہ اللہ کے ذم اور غضب پر اس نے ان کی مدح کو اپنے حق میں اختیار کیا ہے،