کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 603
تو وہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ وہ ولایتِ دنیویہ اور اخرویہ کا اہل ہو۔ جس شخص میں ان شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اس کے حق میں مذکورہ بالا تمام ولایات سخت مضر ہیں۔ وہ ان کے اختیار کرنے سے باز رہے اور دھوکے میں نہ آئے۔ اس کا نفس اسے یہ فریب دے گا کہ تو عدل کرے گا اور ولایت کے حقوق بجا لائے گا اور تجھے شوائب ریا وطمع کی طرف میلان نہ ہو گا، کیونکہ اس کا نفس اس فریب کاری میں کاذب ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے، اس لیے کہ نفس کے نزدیک جاہ وولایات سے لذیذ تر کوئی چیز نہیں ہے، کچھ بعید نہیں کہ ولایات کی محبت ہلاکت پر حامل ہو۔ ایک شخص نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی کہ میں صبح کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کو وعظ کیا کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے منع کر دیا، اس نے کہا: آپ مجھے لوگوں کو نصیحت کرنے سے منع کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’أخشی أن تنتفخ حتی تبلغ الثریا‘‘ [مجھے خدشہ اس بات کا ہے کہ تو پھول کر ثریا ستارے تک جا چڑھے گا] لہٰذا انسان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ تذکیر باللہ اور علم کے فضائل پر دھوکا کھائے، کیونکہ اس کا خطرہ عظیم ہے۔ ہم کسی کو اس کے ترک کا حکم نہیں دیتے، اس لیے کہ نفسِ تذکیر میں کوئی آفت نہیں ہے، اصل خرابی تو وعظ و اقرا، افتا و روایت میں اپنی کوششوں اور کاوشوں کا اظہار اور نمود و نمایش ہے۔ لہٰذا جب تک وہ اپنے نفس میں باعثِ دینی پائے تب تک اپنی کاوشیں ترک نہ کرے اگرچہ وہ کسی قدر ریا سے ممزوج ہو، بلکہ ہم تو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ کام کو جاری رکھے اور خطراتِ ریا سے بھی اخلاص وتنزہ میں مجاہدہ نفس بجا لائے، ریا کی خرابیوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ الحاصل امور تین طرح کے ہیں۔ ایک ولایات، ان کا فتنہ اعظم فتن ہے۔ چنانچہ ضعفا سرے سے اس کو ترک کر دیں۔ دوسری صلوات وغیرہ تو اسے ضعفا ترک کریں اور نہ اقویائ، ہاں مگر ریا کی آمیزشوں کو دفع کرنے میں کوشاں رہیں۔ تیسری علوم کے لیے کوششیں کرنا، یہ گذشتہ دو مراتب کے درمیان مرتبہ وسطی ہے، لیکن یہ مرتبہ ولایات کے مشابہ اور آفات سے قریب تر ہے، اس لیے ضعفا کا اس سے بچنا ہی سلامتی والی راہ ہے۔ باقی رہا چوتھا مرتبہ وہ جمع مال اور انفاق مال ہے۔ پس بعض علما نے اسے اشتغال ذکر ونوافل پر فضیلت دی ہے اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے، مگر حق تو یہ ہے کہ اس میں بھی آفاتِ عظیمہ ہیں: جیسے طلبِ ثنا، دلوں کو اپنا گرویدہ بنانا اور عطیات دے کر اپنے آپ کو ممتاز کرنا۔ پس جو شخص ان آفات سے رہائی پائے تو اس کے لیے جمع وانفاق افضل ہے، کیونکہ اس میں وصلِ منقطعین،