کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 601
لیکن اسرار کی مدح کی ہے، کیونکہ اس میں اس آفت سے سلامتی ہے جس سے لوگ کم ہی سلامت رہتے ہیں۔ ہاں جہاں پر اسرار متعذر ہو وہاں اظہار ممدوح ہوتا ہے، جیسے غزوہ، حج، جمعہ اور جماعات، کیونکہ یہاں اظہار کرنا ہی اس کی طرف مبادرت کرنا اور تحریض کے لیے اس میں اظہارِ رغبت کرنا ہے، لیکن اس شرط کیساتھ کہ ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔ حاصل یہ ہے کہ جب عمل ان شوائب سے خالص ہو گا، اس کے اظہار میں کسی کو ایذا اور تکلیف نہ ہو گی، اس میں لوگوں کو اس خیر کے بجا لانے میں اقتدا اور اتباع پر بر انگیختہ کرنا اور اس کی طرف مبادرت کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہ شخص من جملہ علما وصلحا کے ہے جس کی اقتدا کی طرف سب لوگ جلدی کرتے ہیں تو اظہار افضل ہے، لیکن یہ انبیا اور ان کے ورثا کا مقام ہے اور یہ لوگ امرِ اکمل ہی کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ اس اظہار کا نفع متعدی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ أَجْرُھَا وَ أَجْرُ مَنْ یَعْمَلُ بِھَا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ )) [جس نے کوئی اچھی سنت جاری کی تو اسے اس سنت اور قیامت تک اس سنت پر عمل کرنے والوں کا اجر عطا کیا جائے گا] اگر ان میں سے کوئی شرط مختل ہو گئی تو پھر اسرار افضل ہے اور افضلیت اسرار کا اطلاق اسی تفصیل پر محمول ہے۔ ہاں اظہارِ فاضل کا مرتبہ عباد وعلما کے قدموں کو پھسلانے والا ہے، کیونکہ وہ اظہار میں اقویا جیسے ہوتے ہیں اور ان کے دل اخلاص پر قوی نہیں ہوتے اس لیے ان کے اجر ریا کاری کے سبب حبط ہو جاتے ہیں اور انھیں اس کا شعور تک نہیں ہوتا۔ اس جگہ حق کی علامت یہ ہے کہ یہ جس منصب پر فائز ہے اس کے اقران میں سے کوئی دوسرا شخص اگر اس منصب پر ہو تو یہ متاثر نہ ہو بلکہ یہ مخلص رہے۔ اگر وہ اپنے نفس سے یہ بات نہیں جانتا ہے تو وہ ریا کار ہے، کیونکہ اگر اسے مخلوق کی نظر کا ملاحظہ نہ ہوتا تو اپنے نفس کو، باوجود اس علم کے کہ غیر کفایت کر سکتا ہے، غیر پر اختیار نہ کرتا، لہٰذا بندے کو نفس کے دھوکوں سے خبر دار رہنا ہو گا، وہ تو محض دھوکے ہی ہیں جب کہ شیطان ان میں پھانسنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اور ادھر دل کی کیفیت یہ ہے کہ اس پر جاہ و اقتدار کی محبت غالب ہے۔ یہ بات بہت کم ہوتی ہے کہ اعمالِ ظاہرہ آفات و اخطار سے سلامت رہیں اس لیے اخفاے اعمال ہی میں سلامتی ہے۔