کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 595
کے لیے باندھی ہے، اگرچہ اس کا کپڑا ناپاک تھا اور اگر وہ اکیلا ہوتا تو نماز ہی نہ پڑھتا۔ اگر یہ صورت ہے کہ لوگوں کے نہ ہونے پر بھی وہ نماز پڑھتا اور اچھی طرح اور صحیح طور پر پڑھتا، لیکن اسے حصولِ تعریف کی رغبت ظاہر ہوئی تو دو باعث جمع ہو گئے۔ اب اگر یہ شکل صدقہ میں ہے تو اجابت باعثِ ریا پر عاصی ہوا، اور اجابت باعثِ ثواب پر مطیع ٹھہرا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ﴾[الزلزال: ۷] [پھر جس نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی وہ اس کو خود دیکھ لے گا] اب اسے قصدِ صحیح کی مقدار میں ثواب ملے گا اور فاسد قصد کی مقدار میں عقاب ہو گا، ان میں سے ایک دوسرے کو حبط نہ کرے گا۔ اس جگہ نفل نماز کا حکم اسی صدقے کی مانند ہے، جس کا ذکر ہو چکا، یہاں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نماز فاسد ہے یا اس کی اقتدا کرنا باطل ہے، اگرچہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ اس کا قصد ریا اور اظہارِ حسنِ قراء ت ہے، کیونکہ مسلمان کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے کہ اس نے اس تطوع اور نفل سے بھی ثواب کا قصد کیا ہو گا، تو باعتبار اس قصد کے اس کی نماز صحیح ہے، اور اس کی اقتدا بھی درست ہے۔ اگر اس کے ساتھ دوسرا قصد بھی شامل ہو گیا ہے تو اس کے سبب سے وہ عاصی ہے۔ پھر اگر یہ دونوں باعث فرض نماز میںعارض ہوں اور ہر ایک باعث غیر مستقل ہو، اور انبعاث و رغبت ان دونوں سے حاصل ہو تو یہ اس سے واجب کو ساقط نہیں کرتا۔ اگر ہر ایک باعث اس طرح مستقل ہے کہ اگر باعثِ ریا معدوم ہو تو فرض ادا کرے اور اگر باعثِ فرض منعدم ہو تو نماز ریا کاری کے لیے پڑھے تو یہ شکل محل نظر ہے اور سخت محتمل ہے۔ اس لیے احتمالاً یہ کہا جائے گا کہ نماز خالص لوجہ اللہ واجب تھی وہ پائی نہ گئی، یا یوں کہا جائے کہ بباعث مستقل امتثالِ امر واجب تھا اور وہ پایا گیا تو اس کے ساتھ غیر کا اقتران اس سے فرض کو ساقط نہیں کرتا ہے، جس طرح کہ اگر کسی غصب کے گھر میں نماز ادا کرتا۔ اگر یہ ریا نماز کی طرف مبادرت کرنے میں ہے نہ ذاتِ نماز میں تو یہ نماز قطعاً صحیح ہے، کیونکہ اصلِ صلات کے باعث کو، اس حیثیت سے وہ صلات ہے، اس کا غیر عارض نہیں ہوا۔ یہ بحث اس ریا میں تھی جو کہ عمل پر باعث ہوتی ہے۔ رہا لوگوں کے اس عمل پر مطلع ہونے پر خوش ہونا جب کہ اس کا اثر زبان تک نہ پہنچے کہ عمل میں تاثیر کرے تو فسادِ نماز بعید ہے۔