کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 594
پھر انھوں نے اس بات کو بعید جانا ہے کہ یہ طاری ریا عمل کے ثواب کو باطل کرے، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ اسے اخلاص پر مکمل ہونے والے عمل کا ثواب ملے اور اطاعتِ خدا میں ریا کاری کے سبب سزا دی جائے اور اگرچہ یہ ریا کاری اس عبادت سے فراغت کے بعد کیوں نہ ہو۔ برخلاف اس صورت کے کہ دورانِ عمل اس کا عقد ریا کی طرف متغیر ہو گیا تو یہ محبط بلکہ مفسد عبادت ہے اگر خالص ریا آ گئی ہے۔ اور اگر ریاے محض نہیں ہے لیکن اتنی غالب ہوئی ہے کہ قربت کا قصد، جو اس میں موجود تھا، دب گیا تو یہ افسادِ عبادت میں متردد ہے۔ حارث محاسبی کا میلان افساد کی طرف ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک احسن یہ ہے کہ اس قدر ریا، جب کہ اس کا اثر عمل میں ظاہر نہ ہو، بلکہ عمل کا صدور باعثِ دین سے باقی رہے اور فقط اطلاع کا سرور اس کی طرف منضاف ہوا تو عمل فاسد نہ ہو گا، کیونکہ اصل نیت جو باعث علی العمل اور حامل علی الاتمام تھی وہ ہنوز باقی ہے۔ برخلاف اس عارض ریا کے کہ اگر لوگ نہ ہوتے تو نماز کو قطع کر دیتا تو یہ مفسد عبادت ہے، اس عبادت کا پھر اعادہ کرے اگر یہ عبادت فرض ہے۔ وہ احادیث جو ریا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، اس صورت پر محمول ہیں جس میں صرف مخلوق کی رضا مقصود ہو۔ جو اخبار شرکت کے بارے میں آئی ہیں وہ اس شک پر محمول ہیں کہ ریا کار کا قصد ثواب کے قصد سے مساوی یا اغلب ہو۔ اگر قصدِ ثواب کی بنسبت ریا کاری کا قصد ضعیف ہے تو عمل کا ثواب بالکلیہ ختم ہو گا اور نہ نماز فساد کے لائق ٹھہرے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عقدِ نماز کی ابتدا میں ریا کاری شامل ہو گئی اور سلام پھیرنے تک ساتھ ہی رہی تو پھر اس کی قضا کرنے میں کچھ اختلاف نہیں ہے، وہ نماز، نماز شمار نہ ہوئی۔ اگر اثناے نماز میں نادم ہو کر توبہ کر لی تو ایک فرقے نے کہا کہ وہ نماز منعقد نہیں ہوئی اسے دوبارہ نئے سرے سے ادا کرے، جبکہ دوسرے فرقے نے کہا ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے سوا سارا فعل لغو ہوا، لہٰذا وہ اسی تحریمہ پر اسے پورا کرے۔ تیسرے فرقے نے کہا: اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہے، لہٰذا وہ نماز مکمل کرے، اس لیے کہ اعتبار خاتمے کا ہے جس طرح کہ اگر اخلاص کے ساتھ عمل کی ابتدا کرتا اور ریا پر ختم کرتا تو اس کا عمل فاسد ہو جاتا۔ آخری دونوں قول قیاس فقہ سے بالکل خارج ہیں، خصوصاً ان دونوں میں سے بھی پہلا قول۔ اسی طرح یہ قول کہ اگر ختم باخلاص کرتا تو نماز صحیح ہوتی، کیوں کہ ریا نیت میں قادح ہوتی ہے۔ قیاس فقہ پر تو یہ بات مستقیم اور درست ہے کہ اگر عمل کا باعث ابتداے عقد میں مجرد ریا ہے نہ طلبِ ثواب اور امتثالِ امر تو افتتاح ہی منعقد نہ ہوا اس کا ما بعد کس طرح صحیح ہو گا؟ کیونکہ اس نے جزم بہ نیت نہیں کیا ہے، اس نے تو تکبیر تحریمہ ہی لوگوں