کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 593
(( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ فَأَنَا مِنْہُ بَرِیٌٔ ھُوَ لِلَّذِيْ أَشْرَکَ )) [1] [جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے کسی غیر کو میرا شریک بنایا تو میں اس سے بری ہوں، وہ اسی کے لیے ہے جسے اس نے شریک بنایا ہے] امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ریا اگرچہ حرام ہے، لیکن اصل ثواب سے مانع نہیں ہوتی ہے، جبکہ باعثِ عبادت اغلب ہو۔ اسی لیے یہ کہا ہے کہ اگر لوگوں کا دیکھنا اس کا غالب مقصد ہو اور اس وجہ سے وہ عبادت میں زیادہ نشاط و ہمت ظاہر کرتا ہے اور ان کی عدم موجودگی میں بھی وہ یہ عبادت ترک نہیں کرتا تو اس صورت میں ہمارا گمان یہ ہے ۔واللہ أعلم۔ کہ ریا اصل ثواب کے لیے محبط نہ ہو، لیکن ریا کے قصد کی مقدار پر عقاب اور ثواب کے قصد کی مقدار پر ثواب ملے، انتھیٰ۔ سعید بن المسیب اور عبادہ بن صامت کے قول اس پر دلیل ہیں کہ اسے اصلاً ثواب نہ ہو گا، بلکہ خود امام غزالی رحمہ اللہ نے اس سے پہلے یہ کہا تھا کہ جب صدقہ و نماز میں اجر اور تعریف کا اکٹھا قصد کرے گا تو یہ وہ شرک ہو گا جو اخلاص کے منافی ہے۔ لہٰذا ابن عبدالسلام رحمہ اللہ کا کلام ہی راجح ٹھہرا۔ کلام کا حاصل یہ ہوا کہ جب ریاے مباح عبادت کے ہمراہ ہو گی تو ثواب کو کلیتاً ساقط نہ کرے گی، بلکہ عبادت کے قصد کی مقدار پر ثواب ملے گا، اگرچہ ضعیف ہو، لیکن اگر ریاے محرم ہمراہ ہو گی تو وہ اصلاً اجر کو ضائع کر دے گی، جیسا کہ کئی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیتِ کریمہ: ﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ﴾[الزلزال: ۷] [پھر جس نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی وہ اس کو خود دیکھ لے گا] اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ اس کی تقصیر نے امرِ محرم کے ارادے کی بنا پر اجر کا ضیاع واجب کر دیا ہے۔ اب ایک ذرہ برابر بھی خیر باقی نہیں رہی تو یہ آیت اسے شامل نہ ہو گی۔ ریا اور اخلاص دونوں کے ساتھ عبادت کا حکم: بندے نے جب اخلاص پر ایک عبادت کا عقد کیا، پھر اس پر ریاکاری وارد ہوئی۔ اگر یہ ریاکاری تمام عمل کے بعد آئی تو کچھ اثر نہ کرے گی، کیونکہ وہ عبادت اخلاص پر تمام اور مکمل ہو چکی ہے، اب اس پر ریاکاری کا اثر طاری نہ ہو گا بشرطیکہ وہ تکلف کے ساتھ اس کا اظہار نہ کرے اور اس کے متعلق ڈینگیں نہ مارے۔ پھر اگر بقصد ریا اس کا تکلف کیا تو امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’فھذا مخوف‘‘ [پس اس کے متعلق ڈر ہی ہے] آثار واخبار اس پر دلیل ہیں کہ یہ تکلف عمل ضائع کرنے والا ہے۔
[1] المعجم الأوسط (۶/۳۲۴) نیز دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۸۵)