کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 587
﴿اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَ﴾[الماعون: ۶] [وہ جو دکھاوا کرتے ہیں] نیز فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ﴾[الفاطر: ۱۰] [اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں، ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے] امام مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان سے مراد اہلِ ریا ہیں۔ مزید فرمایا: ﴿وَ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾[الکھف: ۱۱۰] [اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے] یعنی عمل میں ریا نہ کرے۔ یہ آیت اس شخص کے حق میں اتری ہے جو عبادات واعمال سے اجر وحمد کا طالب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا﴾[الدھر: ۹] [(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ] ایک حدیث میں آیا ہے: (( إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ، قَالُوا: وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلرِّیَائُ یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِہِمْ: اِذْہَبُوا إِلَی الَّذِینَ کُنْتُمْ تُرَاؤنَ فِيْ الدُّنْیَا، فَانْظُرُوا ہَلْ تَجِدُونَ عِنْدَہُمْ جَزَائاً)) [1] (رواہ أحمد) [مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !شرک اصغر سے کیا مراد ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں سے فرمائے گا، جبکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا کہ جنہیں دکھانے کے لیے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے، ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی بدلہ ہے؟] طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے:
[1] مسند أحمد (۵/۴۲۸)