کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 586
مدت کے برابر ہے۔ پھر اس مدت میں جتنا اللہ تعالیٰ چاہے وہ مخلد نہ رہیں۔ علما نے اس آیت کی بیس تاویلیں کی ہیں۔ کوئی تاویل حکمتِ تقیید کی طرف راجع ہے، کوئی ارض وسما کے دوام کی مدت کی طرف راجع ہے اور اس میں سے کوئی حکمت استثنا اور معنی استثنا کی طرف راجع ہے۔ پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تاویل کی ان وجوہ کو نقل کیا ہے۔ اس مقام کی عمدہ تفسیر ’’فتح البیان‘‘ اور تفسیر فتح القدیر میں ہے۔[1] پھر کہا ہے کہ ایک قوم کہتی ہے کہ کفار کا عذاب منقطع ہو جائے گا، اس عذاب کی ایک نہایت ہے۔ ان کی دلیل یہی آیتِ باب اور مندرجہ ذیل آیت ہے: ﴿لٰبِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا﴾[النبأ: ۲۳] [وہ مدتوں اسی میں رہنے والے ہیں] کیونکہ معصیت ظلم متناہی ہے تو اس پر غیر متناہی عقاب ظلم ہو گا۔ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا رد کیا ہے۔[2] ابو نعیم کی حدیث میں مرفوعاً آیا ہے: (( إِنَّ اللّٰہَ یُعَذِّبُ الْمُوَحِّدِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ بِقَدْرِ نُقْصَانِ أَعَمَالِھِمْ ثُمَّ یَرُدُّھُمْ إِلیٰ الْجَنَّۃِ خُلُوْداً دَائِماً أَبَداً بِإِیْمَانِھِمْ )) [3] [بلا شبہہ اللہ تعالیٰ موحدین کو ان کے اعمال کے نقص کے پیش نظر انھیں جہنم میں عذاب دے گا، پھر ان کے ایمان کے سبب انھیں جنت کی طرف لے جائے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے] الحاصل یہ عقیدہ کہ آگ کو فنا ہے، کتاب وسنت کے ظاہر، جمہور علماے امت اور ائمہ ملت کے اجماع کے خلاف ہے۔ بعض اکابر جو اس طرف گئے ہیں یا بعض سلف جو اس کے قائل ہیں۔ ان کا قول مؤول ہے یا یہ ان کی اجتہادی خطا ہے، واللّٰہ أعلم۔ ریا کاری: ریا شرکِ اصغر ہے۔ کتاب وسنت اس کی تحریم پر شاہد ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
[1] فتح القدیر (۲/۷۵۸) فتح البیان (۶/۲۴۶) [2] التفسیر الکبیر (۱۸/۴۰۴) [3] حلیۃ الأولیا لأبي نعیم (۸/۵۴) اس کی سند میں ’’قطن بن صالح دمشقی‘‘ راوی کذاب ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ دیکھیں: لسان المیزان (۴/۴۷۴)