کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 585
یہ قول اس کے لیے نفع مند نہیں، اس لیے کہ اس کے بعد اللہ جل وعلا نے فرمایا ہے:
﴿ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾[یونس: ۹۱]
[کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا]
نزولِ عذاب کے وقت ایمان نفع مند نہیں ہوتا:
قاضی عبد الصمد حنفی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ صوفیہ کا مذہب یہ ہے کہ ایمان اگرچہ عذاب کے معاینے کے وقت ہو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب قدیم ہے، کیونکہ قاضی مذکور ۵۰۰ھ کے اوائل ۴۳۰ھ میں تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماے متقدمین اور علماے متاخرین کے درمیان حد فاصل ۳۰۰ھ ہے۔ قاضی صاحب متقدمین کے زمانے کے بعد تھے۔ لہٰذا یہ صوفیہ کا مذہب قدیم نہ ٹھہرا۔ اگر فرض کریں کہ ان کا یہ مذہب اس وجہ سے حجت نہیں ہے کہ فرعون کے کفر پر اجماعِ امت ایمان عند الباس پر نہیں ہوا، بلکہ وہ شروع ہی سے اللہ تعالیٰ، موسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب پر ایمان نہ لایا تھا اور جو ابن عربی رحمہ اللہ نے فتوحات مکیہ میں ایمانِ فرعون کی صحت کے دلائل لکھے ہیں، وہ سب مخدوش اور مدفوع ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان دلائل کا ضعف بیان کیا ہے، یہاں اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں: جب کفرِ فرعون کے حق میں حدیث آ چکی تو پھر اس کے ایمان لانے میں بحث کرنا سنتِ مطہرہ کے ساتھ مصادمت ہے۔ إذا جاء نھر اللّٰہ بطل نھر معقل۔
کفار کے لیے دائمی اور ابدی عذاب ہے:
یہ آیت اور حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ جہنم میں کفار کا عذاب دائمی اور ابدی ہے اور جو کچھ اس کے خلاف آیا ہے وہ واجب التاویل ہے، جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآئَ رَبُّکَ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾[ھود: ۱۰۷]
[ہمیشہ اس میں رہنے والے، جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ بے شک تیرا رب کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے]
اس آیتِ کریمہ کا ظاہری مفہوم یہ بتاتا ہے کہ ان کے عقاب کی مدت ارض و سما کی بقا کی